معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
۱) جو حق تعالیٰ کی صفات پر نظر رکھتا ہے اور اپنی صفات کو خدائے پاک کا عطیہ و مستعار سمجھتا ہے وہ شکر گزاری سے مقربِ بارگاہ ہوتا ہے اور جو اپنی صفات کو اپنی ذاتی حکمت و دانائی کا ثمرہ و نتیجہ سمجھتا ہے اور اسے مستقل اور ناقابلِ زوال سمجھتا ہے وہ بے خوف اور ناشکرا ہوکر خدا سے دور ہوجاتا ہے ۔ ۲) عجب و خود پسندی کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی عاشق محبوب کے سامنے بجائے محبوب کو دیکھنے کے اپنے کو دیکھ رہا ہو۔ پس وہ محبوب اسے ایک چپت لگا کر بھگا دے گا۔ اسی طرح نادان سالک تھوڑی تسبیح و نوافل نماز پڑھ کر اپنے کو سب سے افضل اور خدا کا مقرب سمجھتا ہے۔ حالاں کہ ایک بزرگ فرماتے ہیں:جو بندہ اپنی نگاہ میں حقیر ہوتا ہے خدا کی نظر میں باعزت ہوتا ہے اور جو اپنی نظر میں اپنے کو اچھا سمجھتا ہے خدا کی نظر میں ذلیل ہوتا ہے۔ نادان اور احمق صوفی کی مثال میں ایک حکایت یاد آئی۔حکایت ایک مرید نے اپنے (دنیا دار) پیر سے خواب بیان کیا کہ حضرت ! میری انگلی میں پائخانہ لگا ہوا ہے اور آپ کی انگلی میں شہد لگا ہوا ہے۔ پیر صاحب جھٹ بول اٹھے کہ نالائق!تو دنیا دار ہے اس لیے پائخانہ تیری انگلی میں لگا تھا اور میں دیندار ہوں اس لیے شہد میری انگلی میں لگا ہوا تھا۔ مرید نے کہا: حضور ! ابھی پورا خواب تو سنیے آگے کیا ہے۔ میں نے دیکھا کہ آپ میری انگلی چاٹ رہے ہیں اور میں آپ کی انگلی چاٹ رہا ہوں ۔ پھر تو پیر صاحب کو اپنی بزرگی معلوم ہوگئی ۔ چوں کہ یہ پیر مرید سے دنیا لوٹتا تھا اس لیے خواب میں بھی پائخانہ چاٹتا ہے اور مرید چوں کہ مخلص تھا اس لیے وہ شہد چاٹتا تھا۔فوائدِ صحبتِ شیخ دوش رفتم درمیان مجلس سلطانِ خویش برکفِ ساقی بجام اندر بدیدم جانِ خویش