معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
احقر کا کلامِ عبرتناک برائے علاجِ عشق ہوسناک یہاں نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔کلامِ عبرتناک برائے علاجِ عشقِ ہوسناک وہ زلف فتنہ گر جوفتنہ ساماں تھی جوانی میں دُمِ خر بن گئی پیری سے وہ اس دارِ فانی میں سنبھل کر رکھ قدم اے دل بہارِ حسنِ فانی میں ہزاروں کشتیوں کا خون ہے بحر ِ جوانی میں ہماری موت روحانی ہے عشقِ حسن ِ فانی میں حیاتِ جاوداں مضمر ہے دل کی نگہبانی میں جو عارض آہ رشک صد گلستاں تھے جوانی میں وہ پیری سے ہے ننگِ صد خزاں اس باغِ فانی میں جو ابرو اور مژگاں قتل گاہ عاشقاں تھے کل وہ پیری سے ہیں اب مژگان خر کیچڑ روانی میں وہ جانِ حسن جو تھا حکمراں کل بادشاہوں پر ہے پیری سے بغاوت آج اس کی حکمرانی میں محبت بندۂ بے دام تھی جس روئے تاباں کی زوالِ حسن سے نادم ہے اپنی جانفشانی میں وہ ناز حسن جو تھا زینتِ شعر و سخن کل تک وہ اب پیری سے ہے محصور کیوں ریشہ دوانی میں کہاں کا پردۂ محمل کہاں کی آہ مہجوری وہ بت پیری سے ہے رسوا غبار شتربانی میں