معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
شمس الدین تبریزی کی غلامی کے صدقے میں آج مولائے روم کہلایا جارہا ہوں ۔ یہ راستہ خدا کا کوئی تنہا نہیں طے کرسکتا ۔ مولانا محمد احمد صاحب مدظلہٗ کا کیا خوب شعر ہے ؎ تنہا نہ چل سکیں گے محبت کی راہ میں میں چل رہا ہوں آپ مرے ساتھ آئیے افسوس کہ اہلِ علم اپنے علمِ درسی کو کافی سمجھتے ہیں حالاں کہ عمل کے لیے علم فقط کافی نہیں،عمل کی ہمّت تو اﷲ والوں کی مصاحبت اور مجالست سے پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح دنیاوی تعلقّات میں پھنس کر بھی لوگ فرصت نہیں نکالتے کہ کچھ دن اﷲ والوں کے پاس رہ کر حق تعالیٰ کی محبت سیکھیں۔ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ معاش میں اتنا مشغول ہونا کہ کسی بزرگ کے پاس ہر ہفتہ یا مہینہ حاضری کا موقع نہ پائے میں ایسی روزی کو ناجائز کہتا ہوں کیوں کہ کسبِ حلال کے ساتھ ہم پر آخرت کی تیاری بھی تو فرض ہے اور یہ موقوف ہے اہل اﷲ کی صحبت پر اور ضروری کا موقوف علیہ بھی ضروری ہوتا ہے ۔ ایک عالم کی اس بات پر کہ اہل اﷲ کی صحبت کا کیا درجہ ہے ؟ ارشاد فرمایا کہ میں فرض ِعین قرار دیتا ہوں کیوں کہ نفس کی اصلاح بدون مصلح ممکن نہیں اور فرمایا کہ عامی اہل اﷲ کی صحبت سے ولی بن سکتا ہے اور عالم بدون صحبت اہل اﷲ ولی نہیں بن سکتا۔ حق تعالیٰ کی محبت و پیاس جس روح میں ہوتی ہے اسے تو اﷲ والوں کو دیکھتے ہی پیار آتا ہے۔ سلوک کاپہلا قدم اﷲ والوں کی محبت اور دنیا سے دل کا اچاٹ ہوناہے۔ قلب میں جوش و شوق کے لیے احقر اپنی دو نظمیں یہاں تحریر کرتا ہے۔نعرۂ مستانہ پھر نعرۂ مستانہ ہاں اے دلِ دیوانہ زنجیر ِ علائق پر اک ضرب ہو رندانہ پھر اشک بداماں ہو پھر چاک گریباں ہو پھر صحرا نوردی کا دہرا کوئی افسانہ