معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
ظالم ہے عدل کے خلاف غیر کو دل دیا اگر جس نے دیا ہے دل تجھے دل کو فدا اسی پہ کر اس کا سکون چھن گیا مرکز سے جو جدا ہوا مرکزِ دل خدا ہے بس دل نہ فدا کسی پہ کر تشریح:یہ ہے کہ دل تو حق تعالیٰ نے پیدا کیا ہے پھر اس دل کو خدا کے سوا دوسروں پر فدا کرنا عشقِ مجاز کے لیے کیسے جائز ہوگااورشرعاً ہرطرح نامناسب ہے۔ہاں جو محبت اﷲ کے لیے ہو اور نفس کے لیے نہ ہو وہ محبت بھی باعثِ ثواب ہے جیسے بیوییا ماں باپ یا اولاد یا استاد یا پیر کی محبت یہ سب باعثِ ثواب ہے۔نصیحت جوانی میں شہوت کے گناہوں سے بچنا نہایت ضروری ہے کیوں کہ اس وقت طاقت بھی جوان ہوتی ہے لہٰذا سالک کو چاہیے کہ فوراً کسی اﷲ والے سے تعلق قائم کرکے اپنے حالات میں مشورہ کرتا رہے اور بدنگاہی وغیرہ کا جو علاج مرشد بتائے اس پر ہمّت سے عمل کرے بالخصوص حسین لڑکوں سے بہت دور رہے کہ اس فتنے میں بہت آسانی سے شیطان مبتلا کردیتا ہے اور زندگی تباہ ہوجاتی ہے ۔ دنیا اور آخرت کی ذلت اور عذاب کے سوا کچھ حاصل نہیں ۔ مزہ عارضی اورتھوڑی دیر کا، تکلیف اور عذاب دائمی اور رسوائی دائمی۔ کسی شاعر نے خوب کہا ہے ؎ جو پہلے دن ہی سے دل کا نہ ہم کہا کرتے تو اب یہ لوگوں سے باتیں نہ ہم سنا کرتے دل کو خدا نہ بناؤ۔ جس بات سے اﷲ تعالیٰ ناراض ہوں اس جگہ دل کی بات ہرگز نہ مانو ورنہ دل خود تباہ ہوگا اور تمہیں بھی تباہی میں مبتلا کردے گا۔ حق تعالیٰ کا یہ ارشاد ہر وقت حرزِ جان بنا کر رکھنا چاہیے۔ قرآنِ پاک میں ارشاد ہے: اَلَا بِذِکۡرِ اللہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ خوب سن لو کہ دلوں کا اطمینان اﷲ تعالیٰ ہی کی یاد سے عطا ہوتا ہے۔