معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
حاضر ہوں سر بکف سر میداں لیے ہوئے ہر رگ ہے جوشِ خونِ شہیداں لیے ہوئے کوئی بھی ہو جو سیرتِ نبوی سے دور ہو اک جانور ہے صورتِ انساں لیے ہوئے دھوکا نہ دے تجھے کہیں دنیائے بے ثبات آئی خزاں ہے رنگِ بہاراں لیے ہوئے احساس سخت کوشی الفاظ ہیچ ہے جب تک نہ ہو عمل کا بھی پیماں لیے ہوئے مدنظر تو شاعری اختر نہیں مجھے کہتا ہوں میں ہدایتِ قرآں لیے ہوئےمرتبۂ روحِ عارف بجاں بر آسمانِ عشق رفتم بصورت گر دریں پستم بامروز ترجمہ وتشریح:عشق کے آسمان پر میری روح نے سفر کیا ہے اگرچہ میرا جسم آج اس پستی میںمعلوم ہوتا ہے ۔مولانا نے سالک کی وہ حالت بیان فرمائی ہے کہ جب کسی کو کوتاہی میں ابتلا ہوتا ہے اور سالک زار و قطار ندامت سے حق تعالیٰ کے حضور روتا ہے پس صورتاً تو وہ پستی میں ہے مگر روح کو عروج و قرب حاصل ہے۔ کیوں کہ صدورِ خطا سے تقدس کا دعویٰ ختم ہوگیا اور پندار و عجب و خود بینی کا صنم کدہ مسمار ہوگیا اور ندامت و تذلل کہ حاصل ِعبدیت ہے اسے حاصل ہوگئی۔ پس یہ داغ دامنی اس پاکدامنی سے افضل ہے جس سے تکبر و ناز میں مبتلا تھا۔ حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ؎ نازِ تقویٰ سے تو اچھا ہے نیاز رندی جاہِ زاہد سے تو اچھی مری رسوائی ہے