معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
تو لب پر جاری رہا۔ حضرت مخدومی ڈاکٹر عبدالحی صاحب دامت برکاتہم نے اس شعر کی بڑی قدر فرمائی اور دیر تک اس کا لطف لیا اور فرمایا:مصرعۂ اولیٰ نعمت ہے اور مصرعۂ ثانیہ اس کے حصول کا ذریعہ ہے۔در بیانِ غمِ فراق از شیخِ کامل شمس کمال مجد بہ مغرب نہفت رو اندر پیش رواں ز بسے چشم خون ناب ترجمہ و تشریح: غالباً اس شعر کا تعلق ایک واقعہ سے ہے وہ یہ کہ جب حضرت شمس تبریزی پر مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کےبعض نادان رفقاء نے یہ اعتراض کیا کہ یہ کیسا قلندر مست فقیر ہے جس نے مولانا پر وجد، سکر اور بے خودی کی کیفیت طاری کردی ۔ چوں کہ یہ نادان لوگ باطنی احوال اورتعلق مع اﷲ(معیتِ خاصہ) کے آثار سے بے خبر تھے اس لیے انہوں نے حضرت شمس سے عداوت اور نفرت کا کچھ اظہار کیا۔ جس کے سبب حضرت شمس مولانا کو بدون اطلاع کیے ہوئے اچانک شام کی طرف روپوش ہوگئے۔ جب مولانا کو خبر ہوئی تو عشقِ شیخ نے بے چین کردیا اور دیوانہ وار در بدر تلاش کرنا شروع کردیا، ہر ایک راہ گیر سے پوچھتے کہ کہیں ہمارے شمس کو دیکھا ہے ۔ ایک دن کسی نے کہا:ہاں میں نے ان کو شام میں دیکھا ہے ۔ فرمایا: ہائے اس شام کی صبح کیسی ہوگی جس میں میرا شمس مقیم ہے۔ اس شعر میں اس واقعے کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ فرماتے ہیں:میرا مرشد شمس سراپا کمال مغرب میں روپوش ہوگیا،مراد شام ہے کہ وہ غالباً مولانا کے وطن سے مغرب کی طرف ہوگا۔ اور دوسری توجیہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ شمس کے لغوی مفہوم کی رعایت سے ان کی جدائی کومغرب میں روپوشی سے تعبیر کیا ہو جیسا کہ آفتاب کے غروب ہونے کے مقام کو مغرب کہتے ہیں۔ اورمولانا فرماتے ہیں:ان کی جدائی کے سبب ان کے مریدین صادقین کی آنکھوں سے بسبب شدتِ غمِ فراقِ خون کے آنسو رواں ہیں۔ مولانا کے اس شعر سے مولانا کا مقام ِمحبت مع الشیخ ظاہر ہوتا ہے۔