معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
نظر بازی اورعشقِ بازی کی تباہ کاری کا آنکھوں دیکھا حال ایک صاحب دوکاندار تھے، بال بچے دار تھے، اس دوکان سے فرصت پاکر ایک امیر خاندان میں ٹیوشن کرتے تھے ، کچھ لڑکے اور کچھ لڑکیاں بھی پڑھنے لگیں۔ یہ شاعر خوش آواز بھی تھے ۔ بدنگاہی کرتے کرتے عشق مجازی میں مبتلا ہوگئے۔ اور پھر ان پر عذاب الٰہی شروع ہوگیا،راتوں کی نیند حرام ہوگئی، دوکان برباد ہونے لگی ، گھر میں فاقے ہونے لگے ، صحت خراب ہوگئی، آنکھیں اندر کو دھنس گئیں۔ ایک دن احقر ان کی دوکان سے گزرا،دیکھا کہ بال بکھرے ہوئے گرد آلود ہیں اور یہ شعر پڑھ رہے ہیں ؎ مل ہی جائے گا کوئی کنارہ مجھے موج غم دے رہی ہے سہارا مجھے لیکن شاعری سے کنارہ نہیں ملتا۔ غم سے نجات دینا تو حق تعالیٰ کے قبضے میں ہے۔ ایک دن دیکھا کہ سخت پریشان بیٹھے ہیں خیریت معلوم کی ۔ کہا: دوکان کا ستیاناس ہوچکا، بچے بھوکے مررہے ہیں ، دل میں آگ لگی ہے ، تین ماہ سے نیند اڑی ہوئی ہے، کسی بزرگ کا نام بتاؤ جہاں جاکر سکون حاصل کروں۔ احقر یہ حالت دیکھ کر کانپ گیا اور خدا سے پناہ مانگی ۔ حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ کا ارشاد یاد آیا کہ عشقِ مجازی عذا بِِ الٰہی ہے خدا ہم سب کو محفوظ رکھے۔ اس کے بعد احقر پاکستان آگیا نہ معلوم اس کا کیا حشر ہوا۔ اس کے برعکس جس نے اﷲ تعالیٰ کو یاد کیا اس کے قلب کو سکون ملا اور بہت اچھی نیند آئی ؎ آتی نہیں تھی نیند مجھے اضطراب سے تیرے کرم نے گود میں لے کر سلادیا ا س کا راز یہ ہے کہ ہماری روح کو حق تعالیٰ سے ایسا ہی تعلق ہے جیسے مچھلی کو پانی سے اور مچھلی بدون پانی کے بے چین رہتی ہے۔ عشق مجازی کے تو لغوی معنیٰ ہی خلاف حقیقت کے ہیں، جیسے کوئی بالو کو پانی سمجھ کر بالو کی چمک دمک پر فریفتہ ہو یا کھاری پانی سے عشق