معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ پوری ہمّت سے نفس کے تقاضے کو روکنا چاہیے لیکن احیاناً جب خطا ہوجاوے تو دو رکعت توبہ پڑھ کرخوب روکر معافی مانگ لے اور آیندہ کے لیے عہد و ارادہ توکلاً علی اﷲ کرلے کہ اب پھر یہ خطا نہ کروں گا۔ اس کے بعد پھر اسی دھندے میں نہ لگا رہے کہ ہائے یہ خطا مجھ سے کیوں ہوئی۔ ہر وقت اپنی خطا کو ہی یاد کرنا حجابِ راہ ہے۔ ہم خدا کی یاد کے لیے پیدا ہوئے ہیں یا خطاؤں کی تسبیح پڑھنے کے لیے ؟ توبہ کے بعد ذکر میں مشغول ہوجاوے۔ کیوں کہ ہر وقت صدمۂ معصیت سے دل میں مایوسی پیدا ہوتی ہے اور پھر خشکی بڑھتی ہے بالآخر مالیخولیا یا کسی اور بیماری میں ابتلا کا خطرہ ہوتا ہے۔ البتہ مجموعی طور پر یہ دعا کرتا رہے کہ اے خدا! میری تمام خطاؤں کو عفو فرما اور میری بے حساب بخشش فرما۔ سچی توبہ سے گناہ کی دوری ختم ہوکر حضوری سے تبدیل ہوجاتی ہے بشرطیکہ دل سے آہ نکل جائے اور دل کی گہرائی اور جگر کے خون کی شمولیت سے استغفار ہو۔ مراد تضرّع و الحاح ہے۔ احقر کے چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎آہِ بے نوا عالمِ ہجر کو مرے تو نے وصال کردیا یعنی ہماری آہ کو واقفِ حال کردیا اپنا جہاں دکھا کے یوں محوِ جمال کردیا میری نظر میں یہ جہاں خواب و خیال کردیا میرے قویٰ تو اس قدر ہوتے ابھی نہ مضمحل اے دل مبتلائے غم تو نے نڈھال کردیا میرا پیام کہہ دیا جا کے مکاں سے لامکاں اے میری آہِ بے نوا تو نے کمال کردیا ذوقِ طلب بھی مختلف دہر میں دیکھتا رہا اخؔتر بے قرار نے تیرا سوال کردیا