معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
کہ آسمان نے خواب میں بھی نہیں دیکھی۔ اور حق تعالیٰ نے قلب کو اپنی محبت کی ایسی آگ بخشی ہے جس کو کوئی پانی نہیں بجھا سکتا۔ مولانانےاپنی مثنوی میں اس مضمون کو اس طرح بیان فرمایا ہے ؎ باز آمد آبِ من در جوئے من باز آمد شاہِ من در کوئے من میرے دریا میں پھر میرا پانی آگیا اور میری گلی میں پھر میرا شاہ آگیا۔ سالکین کو قبض کے بعد جب بسط عطا ہوتا ہے تو یہی کیفیت اور حالت محسوس ہوتی ہے جس کو شعرِ مذکور میں بیان فرمایا گیا ۔ یہاں بھی دریا سے مراد سالک کا دل ہے اور پانی سے مراد حق تعالیٰ کی ذات ہے، اسی طرح گلی سے مراد قلبِ عارف ہے اور شاہ سے مراد ذاتِ حق ہے۔دربیانِ گریہ و زاری چوں دیدہ شد ز اشک لبالب ندا رسید احسنت اے پیالہ و شاباش اے شراب ترجمہ و تشریح:جب عاشقِ حق کی آنکھیں اشکِ محبت سے لبالب بھرگئیں تو الہام ہوا کہ مبارک ہو اے پیالہ ( یعنی اے چشمِ پُر آب) ا ور مبارک ہو اے شرابِ محبت یعنی اﷲ کی محبت میں نکلے ہوئے آنسو، شرابِ محبت سے لبریز آنکھیں تجھے مبارک ہوں ؎ اے خوشا چشمے کہ آں گریانِ اوست اے ہمایوں دل کہ آں بریانِ اوست مولانا رومؔی ترجمہ: کیا ہی مبارک ہیں وہ آنکھیں جو حق تعالیٰ کی یاد میں رونے والی ہیں اور کیا ہی مبارک ہے وہ دل جو حق تعالیٰ کے لیے مضطر اور بے چین ہے۔