معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
دربیانِ امتحانِ عاشقاں عاشقی بر من پریشانت کنم کم عمارت کن کہ ویرانت کنم ترجمہ وتشریح:محبوبِ حقیقی کی طرف سے حکایت کرتے ہوئے مولانا فرماتے ہیں کہ اے طالب و عاشق اگر تو میرے ساتھ محبت کا دعویٰ کرتا ہے تو میں تیری آزمایش کروں گا وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ…الٰخاور اپنے امتحانات خوف و جوع و نقصانِ اموال و اموات سے تیرا امتحان کروں گا۔ امتحان کا لفظ محنت سے ہے جس میں مشقت و پریشانی ضرور ہوتی ہے ( مگر وہ نعمت قرب و معیّتِ خاصہ کی بشارت سے لذیذ کردی جاتی ہے جس طرح تیز مرچوں والے کباب کھانے سے آنسو تو بہتے ہیں مگر زبان کس لطف سے چٹخارے لیتی ہے اور قلب کس درجہ پُر کیف ہوتا ہے۔) اور عمارت کم بنا کہ میں ویران کرتا ہوں (اگرچہ اس ویرانی میں خزانہ اپنے قربِ خاص کا منکشف فرماتے ہیں جس سے انہدام عمارت پر عاشق بجائے حسرت صد آفرین کہتا ہے) ؎ تو در آں کہ خلق را حیراں کنی من بر آں کہ مست و حیرانت کنم ترجمہ وتشریح:اے عاشق! تو اس فکر میں ہے کہ اپنی صفات سے مخلوق کو محوِ حیرت کرے اور جاہ حاصل کرے اور میںیہ ارادہ رکھتا ہوں کہ تجھے اپنے دردِ محبت سے مست اور محوِ حیرت کروں چناں چہ عارفین خالق کی طرف متوجہ رہتے ہیں اور مخلوق کے ساتھ ان کی محبت و خدمت للحق ہوتی ہے۔ یعنی جو رضائے حق کا ہر وقت اہتمام عشقِ حق کے سبب کرتا ہے وہ مخلوقِ خدا پر بھی نسبت الی الخالق کا لحاظ رکھتے ہوئے بہت مشفق و مخلص و کریم ہوتا ہے ۔ اس کی اس مثال سے توضیح خوب ہوجاتی ہے کہ جو اپنے باپ سے جس قدر تعلّق قوی اور صحیح اور مخلصانہ رکھے گا اسی قدر باپ کی خوشنودی کی خاطر بھائیوں کے ساتھ بھی کریم اور مخلص ہوگا۔ اور جو باپ کے ساتھ غدار اور ظالم ہوگا وہ بھائیوں کے