معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب قیامت کے دن دوزخ اور جنت اور تمام مغیبات دیکھوں گا تو میرا ایمان کچھ زیادہ نہ ہوگا ، اتنا ایمان تو مجھے فیضان بارگاہِ رسالت کے صدقے دنیا ہی میں حاصل ہے ۔ احقر کو عشقِ مجازی کے متعلق اپنا ایک شعر اور یاد آیا ؎ ہر عشقِ مجازی کا آغاز بُرا دیکھا انجام کا یا اﷲ کیا حال ہوا ہوگا اگر عالم ہمہ پُر خار باشد دلِ عاشق گل و گلزار باشد ترجمہ وتشریح:اگر تمام دنیا کانٹوں سے بھر جاوے لیکن حق تعالیٰ شانہٗ کے عاشق کا دل ہمیشہ گل و گلزار اور پُر بہار ہوگا۔ کیوں کہ دنیائے فانی کی ہر بہار فانی ہے اور حی وقیوم کی ذات باقی ہے اس لیے اﷲ تعالیٰ کے تعلّق و محبت کی بہار بھی بے خزاں اور باقی ہے ؎ ایں بہارے نیست کو رادے رسد عاشقانِ حق کے قلب میں جو بہار ہے وہ ایسی بہار نہیں جسے خزاں زائل کرسکے یا نقصان پہنچا سکے۔ اﷲ والوں کو اگر کبھی کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اس میں بھی حق تعالیٰ کی رحمت و حکمت کا مشاہدہ کرتے ہیں اور پُر سکون اور خنجر ِتسلیم کے سامنے سر ِتسلیم خم رہتے ہیں۔حکایت ایک بزرگ سے کسی نے پوچھا کہ کیا حال ہے اور کیسا مزاج ہے؟ فرمایا: اس بندے کا مزاج کیا پوچھتے ہو جس کی مرضی کے مطابق کائنات میں تمام کام ہوتا ہے۔ مخاطب نہایت متوحش ہوا کہ یہ کیسا جملہ ہے، جب تشریح کی درخواست کی تو فرمایا کہ بات یہ ہے کہ کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے وہ مرضیٔ حق سے ہوتا ہے اور میں نے اپنی مرضی کو حق تعالیٰ کی مرضی میں فنا کردیا ہے ، پس میری مرضی اور ان کی مرضی ایک ہوچکی ہے۔لہٰذا جو کچھ ہوتا ہے میں یہی سمجھتا ہوں کہ سب میری ہی مرضی کے مطابق