معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
آتی نہیں تھی نیند مجھے اضطراب سے تیرے کرم نے گود میں لے کر سلادیا اخؔتر ہر کہ در ذوقِ عشقِ دنگ آمد سخت فارغ ز نام و ننگ آمد ترجمہ وتشریح:جو شخص کہ ذوقِ عاشقی سےدیوانہ وحیران ہوایعنی خیالِ محبوب میں غرق ہوا وہ نام اور ننگ و ناموس کی فکر و کاوش سے آزاد ہوا ؎ دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ محبت وہ نعمت ہے جو حُبِّ جاہ کو فنا کردیتی ہے جب کہ ہزاروں مجاہدات سے بھی یہ بیماری بہ مشکل جاتی ہے ۔اسی لیے مولانا ر ومی رحمۃ اللہ علیہ نے محبت و عشق حقیقی کو افلاطون اور جالینوس کا لقب دیا ہے اور اس کو نخوت و ناموس کی بہترین دوا بتایا ہے ؎ اے تو افلاطون و جالینوسِ ما اے دوائے نخوت و ناموسِ ما اور محبتِ حقیقی حق تعالیٰ کی محبت کا نام ہے برعکس محبتِ مجازی جو رنگ و روپ سے تعلق رکھتی ہے وہ زوالِ رنگ سے فنا ہوجاتی ہے اور مجاز کے لغوی معنیٰ خلافِ حقیقت کے ہیں۔ احقر کا شعر ہے ؎ اس کے عارض کو لغت میں دیکھو کہیں مطلب نہ عارضی نکلے حضرت حکیم الامّت مجددالملّت مولانا تھانوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لیے تین عمل نہایت مفید ہیں: