معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
۱) حق تعالیٰ کے احسانات کو ہر روز تھوڑی دیر سوچنا۔ ۲) کسی اﷲ والے سے مشورہ کرکے دس پندرہ منٹ ذکرِ الٰہی میں مشغول رہنا۔ احقر مؤلف عرض کرتا ہے کہ ہر روز حق تعالیٰ اپنی رحمت سے ہم کو دن رات میں چوبیس گھنٹے کی زندگی عطا فرماتے ہیں اور چوبیس گھنٹے کے ۱۴۴۰ منٹ بنتے ہیں تو ۱۴۴۰ منٹ میں سے صرف ۴۰ منٹ بھی زندگی بخشنے والے کی یاد میں مشغول ہونا زندگی کو زندگی عطا کرتا ہے اور ہر روز ۱۴۴۰ منٹ زندگی بخشنے والے کی یاد میں۴۰ منٹ بھی نہ دینا کس درجہ ناشکری ہوگی۔ اور زندگی بدون ذکر و فکر کے زندگی سے محروم ہوتی ہے یعنی صورتًا زندگی اورحقیقتاً مردگی ہوتی ہے ۔ ایک بزرگ کا قول ہے ؎ ترا ذکر ہے مری زندگی ترا بھولنا مری موت ہے احقر کو اپنا شعر یاد آیا ؎ مرے دوستو سنو غور سے یہ صدائے اختر بے نوا نہ ہو ذکر ِ حق نہ ہو فکرِ حق تو یہ جینا جینا حرام ہے ۳) تیسرا نسخہ جو اوپر کی دونوں تدبیروں کی روح ہے وہ یہ ہے کہ کبھی کبھی خدائے پاک کے عاشقوں کی صحبت میں حاضری دینا ؎ گر تو سنگ خارہ و مرمر بوی چوں بصاحبِ دل رسی گوہر شوی رومؔی ترجمہ: اگر تو پتھر جیسا سخت دل ہے لیکن اگر کسی اﷲ والے (اہلِ دل) کی صحبت میں بیٹھتا رہے گا تو موتی ہوجائے گالیکن لعل ایک دن میں لعل نہیں بنتا۔ ایک طویل مدت تک آفتاب کی شعاع حکمِ الٰہی اور ارادۂالٰہی سے اس پتھر کے ذرات پر اثرانداز ہوتی ہے پھر وہ لعل بن جاتا ہے۔ اسی طرح اﷲ والوں کے دل کا آفتاب (ہدایت) اپنے مصاحبین اور رفقائے مخلصین کے دلوں پر آہستہ آہستہ اثرانداز ہوتا رہتا ہے اور حق تعالیٰ کی مشیت و فضل سے وہ لعل بن جاتے ہیں ؎