معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
برکت سے ہمارا نخوت و تکبر اور ناموس و حُبِّ جاہ خاک آلود ہوگیا۔ بزرگوں نے فرمایا ہے کہ عاشقوں میں تکبر نہیں ہوتا کیوں کہ عشق کی شان یہ ہے ؎ عشق ساید کوہ را مانند ریگ عشق جوشد بحر را مانند دیگ عشق پہاڑ جیسے متکبرانہ دماغ کو پیس کر بالو بناڈالتا ہے اور عشق سمندر کو دیگ کے مانند جوش دیتا ہے۔عشق سےمرادعشقِ خداہےمجازی محبت تو روسیاہی،رسوائی اورنافرمانی اور عذابِ الٰہی ہے۔ اہلِ مجاز اس کانام بھی عشق رکھتے ہیں مگر در حقیقت وہ فسق ہوتا ہے ؎ گفت مولانائے اشرف تھانوی عشقِ فانی را عذاب ِ سرمدی حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ شیطان سالک تھا مگر عاشق اور عارف نہ تھا (عشق اور معرفت لازم اور ملزوم ہیں پس ہر عاشق عارف ہوتا ہے) ابلیس اگر عاشق حق ہوتا تو بے چوں وچرا امرِالٰہی کے سامنے سر جھکا دیتا۔ چوں از در تو مدد نیابند گر حمزہ و حیدر اند بادند ترجمہ و تشریح:اے عشق! اگر تیرا فیض عشاق کو نہ پہنچے یعنی حق تعالیٰ اپنے کرم سے سالکین کی ارواح کو جذب نہ فرمائیں تو بڑے بڑے شیرانِ طریق بھی روباہ ہوجائیں اور ان کا پتا بھی نہ چلے ، جس طرح ہوا آئی اور چلی گئی۔ پس جو بھی واصل ہوا جذبِ حق سے واصل ہوا ، اپنی سعی و طاقت اور ریاضت و مجاہدہ کو صرف بہانۂ رحمت سمجھے۔ جس طرح چھوٹے بچے کو جو چل نہ سکتا ہو ماں باپ چلاتے ہیں مگر جب گرنے لگتا ہے تو دوڑ کر گود میں لے لیتے ہیں اسی طرح بندہ اپنی طرف سے جب سلوک طے کرتا ہے تو مولائے قدوس اپنے کرم سے اسے آغوشِ رحمت میں لے لیتے ہیں۔حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ اور حضرت علی حیدررضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بطورِ استعارۂ شجاعت کے استعمال کیا ہے ، ان کے مسمّٰی مراد نہیں ہیں ؎