معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
برنہ تا بہ کوہ را یک برگ کاہ آرزو میخواہ لیک اندازہ خواہ ترجمہ:آرزو تو کرو مگر اندازے کے مطابق کیوں کہ ایک تنکا پہاڑ کو نہیں اٹھا سکتا ۔ مولانا رومی حضرت شمس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ؎ من غلامِ آں کہ نفر و شد وجود جز بہ آں سلطان با افضال وجود ترجمہ وتشریح: میں غلام اس ذاتِ گرامی شمس تبریزی کا ہوں جو اپنا وجود کسی دنیاوی طمع سے فروخت نہیں کرسکتا ، ہاں لیکن حق تعالیٰ شانہٗ کی محبت میں وہ اپنی جان کی بازی لگادیتے ہیں۔حکایت ایک بزرگ نے آسمان کی طرف رخ کرکے عرض کیا کہ اے خدا !کس قربانی اورقیمت پر آپ ملتے ہیں۔ الہام ہوا کہ دونوں جہاں مجھ پر فدا کردے۔ عرض کیا ؎ قیمتِ خود ہر دو عالم گفتیٔ نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز ترجمہ:اے خدا! اپنی قیمت آپ نے دونوں جہاں فرمائی ہے ہمیں تو آپ دونوں جہاں سے زیادہ قیمتی معلوم ہوتے ہیں اپنی قیمت اور بالا فرمائیے کہ ابھی تو ارزاں معلوم ہوتی ہے ؎ جان دی دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا دوسرے مصرعہ میں فرماتے ہیں کہ اﷲ والوں کی ارواح ایسی چڑیاں ہیں کہ ان کی پرواز کون و مکاں سے بھی باہر ہے ؎ عجب کیا گر مجھے عالم بایں وسعت بھی زنداں ہے میں وحشی بھی تو وہ ہوں لامکاں جس کا بیاباں ہے