معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
بذکر حق از خلق بگریختہ چناں مست ساقی کہ مے ریختہ توڑ ڈالے مہ و خورشید ہزاروں ہم نے تب کہیں جا کے دکھایا رخِ زیبا تو نے چاند سورج جیسے چہروں سے آنکھیں پھیری جاتی ہیں پھر نور تقویٰ سے دل میں حق تعالیٰ کا قرب محسوس ہوتا ہے اور عارفین سے اس قرب کی لذت کو پوچھیے۔ اے عقل تو بہہ باشی در دانش در بینش یا آں کہ بہر لحظہ صد عقل و نظر سازد ترجمہ و تشریح: اے عقل! تو بہتر ہوگی فہم و نظر کے اعتبار سے یا ہر لحظہ صد عقل و نظر ساز ہے یعنی سینکڑوں عقل و نظر کا خالق ہے۔ اس شعر میں تعلیم ہے کہ حق تعالیٰ کے احکام کی اطاعت ہم پر واجب ہے خواہ ان کے احکام کی حکمت ہماری ناقص عقل میں نہ آئے کیوں کہ ہماری عقل مخلوق اور حق تعالیٰ ہماری عقل کے خالق ہیں تو عقل کو عقل ساز کے سامنے سرنگوں ہونا ہی عین تقاضائے عقل ہوگا بشرطیکہ وہ عقل عقلِ سلیم ہو اور کسی عقل کا خود عقل ساز ہی کے احکام پر تمسخر اور اعتراض انتہائی بے عقلی اور فتورِ عقلی کی دلیل ہے بلکہ یہ عقل بدذات ہے یعنی اس کی ذات میں کوئی خرابی ہے جیسا کہ شیطان بدذات نے امر الٰہی میں چوں و چرا کیا اور مردود ہوا۔ عجیب بات یہ ہے کہ یہ عقلاء جو قوانینِ اسلام پر اپنی عقل کی بالادستی کا دعویٰ کرتے ہوئے اپنے گندے دہن سے یہ گندگی نکال بیٹھتے ہیں کہ صاحب! یہ قانون تو اﷲ میاں کا ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔ لیکن یہی لوگ جب اپنے لیے ملازم رکھتے ہیں اور ملازم سے کہتے ہیں کہ یہ پیالی الماری کے اوپر کے خانے میں رکھ دے اور وہ یہ کہے کہ کیوں اوپر کے خانے میں رکھوں نیچے والے خانے میں رکھ دینے میں کیا حرج ہے تو فوراً جوتا اتار کر اس کی کھوپڑی گنجی کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں اورشعلہ غضب آنکھوں سے پھینکتے ہوئے چیخنا شروع کرتے ہیں کہ ارے نمک حرام! ہمارا نمک کھاتا ہے ، تنخواہ لیتا ہے اور ہمارے حکم میں چوں وچرا کرتا ہے۔