معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
ومشرکین کی طرح نعمتوں میں مشغول ہوکر نعمت دینے والے کو مت بھولو۔ بقول اکبر الٰہ آبادی ؎ آسمان پر جھولو مگر خدا کو مت بھولو بھول بیٹھے اہلِ یورپ آسمانی باپ کو اور سمجھے باپ اپنا برق کو اور بھاپ کوحکایت علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی انگریز نے کہا کہ قرآن میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ خاص بندے تفکر کرتے ہیں آسمان اور زمین کی پیدایش میں۔ تو مولانا! آپ لوگ کہاں اس پر عمل کرتے ہیں اور کرتے بھی ہیں تو بس سرسری اور اجمالی طور پر اورہم لوگ رات دن تحقیقات میں کروڑوں روپیہ خرچ کرتے ہیں اور چاند پر پہنچنے کی تیاری کررہے ہیں۔ مولانا نے جواب دیا کہ شاہی محل میں دو طرح کا داخلہ ہوتا ہے ۔ ایک تو شاہی مہمان داخل ہوتا ہے تو وہ اپنا مقصود شاہ کی ملاقات کو سمجھتا ہے اور شاہی محل کے نقش و نگار اوروہاں کی آرایش کے تمام متاع و اسباب کو اجمالی اور سرسری نظر سے دیکھتا گزرتا ہوا شاہ تک پہنچ کر شاہ کا ہم نشین ہوکر شاہ سے مصافحہ اور ملاقات کا شرف اور اعزاز حاصل کرتا ہے ۔ اور ایک داخلہ چور کا ہوتا ہے ۔ چورجب داخل ہوتا ہے تو اس کا مقصد شاہ سے ملنا نہیں ہوتا بلکہ شاہ کے مال و متاع کو چُرانا مقصود ہوتا ہے اور اسی مقصد کے پیشِ نظر وہ شاہی محل کے ہرکمرے میں گھستا ہے اور ہر چیز کو غور سے دیکھتا ہے۔ پس مسلمان کا مقصد کائنات میں خالقِ کائنات کی رضا حاصل کرنا ہے اس لیے وہ اجمالی نظر سے دیکھ کرعظمتِ الٰہیہ پر استدلال کرتا ہوا اﷲ تعالیٰ تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ اور کفارِ یورپ کا دائرۂفکر صرف مخلوقات تک ہے۔ خالقِ کائنات سے ان کا رشتہ کٹا ہوا ہے اور اﷲ والے تمام کائنات سے صرفِ نظر کرکے اپنے رب کی طرف متوجہ ہیں ؎