معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
چو بگریم خلقہا گریاں شود چو بنالم خلقہا نالاں شود از مثنوی اختؔر ترجمہ:جب میں روتا ہوں تو ایک مخلوق میرے ساتھ شریکِ گریہ ہوتی ہے اور جب میں نالہ کرتا ہوں تو ایک مخلوق میرے ساتھ ہم شریکِ نالہ ہوتی ہے۔ جوئے جویاں ست و پویاں سوئے بحر عاقبت زاں غرق دریا بار شد حلِّ لغات: دریابار: بڑے دریا کو کہتے ہیں۔ بحر: فارسی میں دریا کو کہتے ہیں۔ ترجمہ و تشریح:نہر ڈھونڈنے والی ہے اور دریا کی طرف دوڑنے والی ہے اور اس سعی مسلسل کا ثمرہ یہ ملتا ہے کہ انجام کار وہ نہر بڑے دریا سے جاملتی ہے۔ اس شعر میں وصول الی اﷲ کو اس مثال سے سمجھایا ہے کہ اگر تم مسلسل طریق طے کرتے ر ہوگے تو ایک دن ضرور واصل ہوجاؤگے ؎ گر ز چاہے می کنی ہر روز خاک عاقبت اندر رسی در آب پاک مثنوی رومؔی ترجمہ:اگر ہرروز کسی کنویں سے مٹی نکالتے رہوگے تو ایک دن ضرور پانی تک رسائی نصیب ہوجائے گی۔ مطلب یہ کہ لگن اور دھن سے ذکر او ر فکر میں لگے رہو تو کام ضرور بن جائے گا ؎ کامیابی تو کام سے ہوگی نہ کہ حسن ِ کلام سے ہوگی ذکر کے التزام سے ہوگی فکر کے اہتمام سے ہوگی