معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
کے ذکرو فکر کو عزیز سمجھتا ہے اور اپنی خواہشاتِ نفسانیہ کو مرضیاتِ الٰہیہ کے تابع کرکے مقامِ فنائیت حاصل کرلیتا ہے اور یہی بقا سے بے زاری ہے کہ۔ تو مباش اصلًا کمال ایں ست و بس رود رو گم شو وصال ایں ست و بس ترجمہ:تو اپنے کو مٹادے اور کچھ باقی نہ رہے بس یہی تیرا کمال ہے، جا اور ان کے اندر گم ہوجا یہی تیرا وصال ہے ؎ شمع افزوں را بروزِ آفتاب بنگرش چوں باطل الآثار شد ترجمہ و تشریح:جب حق تعالیٰ کا نور قلب میں پیدا ہوجاتا ہے (ذکر و فکر اور صحبتِ شیخ کے فیضان سے)تو جس طرح آفتاب کے سامنے چراغ بے نور معلوم ہوتا ہے اسی طرح تمام کائنات اور موجودات عارف باﷲ کی نگاہوں سے کالعدم ہوجاتی ہے ؎ جب مہر نمایاں ہوا سب چھپ گئے تارے وہ ہم کو بھری بزم میں تنہا نظر آیا مجذؔوب اس مقام کے مناسب احقر کے دو اشعار فارسی ملاحظہ ہوں ؎ درونِ قلب چو بے پردہ یار مہرباں آید ہمیں بینم کہ جنت بر زمیں از آسماں آید چو دردِ عشق یار ما گہے اندر بیاں آید ز لبہائے ہمہ عالم ز دردِ ما فغاں آید ترجمہ:جب حق تعالیٰ کا خاص قرب قلب محسوس کرتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ جنت آسمان سے زمین پر آگئی اور جب دردِ محبت سے حق تعالیٰ کی محبت کو بیان کرتا ہوں تو کائنات والوں کے لبوں سے نالہ و فریاد جاری ہوتا ہے ؎