معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
آہ سے راز چھپایا نہ گیا منہ سے نکلی مرے مضطر ہوکر چشمِ نم سے جو چھلک جاتے ہیں ہیں فلک پر وہی اختر ہو کر بابا فرید عطار رحمۃ اﷲ علیہ نے خدائے پاک سے ذرۂدردِ دل مانگا تھا ؎ ذرۂ دردِ دلِ عطار را ترجمہ: اے خدا! عطار کو اپنی محبت کے درد کا ایک ذرہ عطا فرما۔ حضرت حاجی امداداﷲ صاحب مہاجر مکی رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنے خلیفۂ ارشد حضرت گنگوہی رحمۃ اﷲ علیہ کے کان میں یہی مصرعہ پڑھا تھا یعنی ؎ ذرۂ دردِ دلِ عطار را اس مقام کی مناسبت سے احقر کے چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎ ہو آزاد فوراً غمِ دوجہاں سے ترا ذرۂ درد گر ہاتھ آئے تب دلوں میں چراغ جلتے ہیں جب کوئی دل سے آہ کرتا ہے دردِ دل کے سراغ ملتے ہیں جب کوئی ان سے چاہ کرتا ہے احقر تقریباً چالیس(۴۰) برس کی عمر تک تقریر پر قدرت نہ پاتا۔ اگر مجبوراً کبھی بیان کرنا ہوا تو زبان خشک ہوجاتی، نہایت صدمہ رہتاتھا ، حق تعالیٰ سے دعا کرتا تھا۔ ایک بار میرے شیخ حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب دامت برکاتہم نے مدینہ منوّرہ میں احقر سے فرمایا کہ آج تم کو وعظ کہنا ہے۔ احقر نے عرض کیا کہ حضرت!آپ کے سامنے تو یہ زبان اور بھی گنگ ہوجاوے گی۔ حکم فرمایا کہ نہیں بیان کرو۔ احقر نے توکلاً علی اﷲ