معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
صاحبِ خانہ مولانا احمدعبداﷲ میمنی کے یہاں کچھ دیر ایک مضمون بیان کیا۔ مولانا موصوف بیمار اور غم زدہ تھے ، کچھ اور پریشانیاں بھی تھیں، احقر نے مضمون میں اس کی رعایت رکھی، ناظرینِ کرام کے لیے اس سے صرف ایک بات جو یاد آرہی ہے کچھ اضافہ سے پیش کررہا ہوں۔ بعد حمد و خطبہ ! ہمارے اوپر جو حالات خیر یا شر،راحت یا تکلیف کے آتے ہیں وہ محض اتفاقی نہیں ہیں جیسا کہ ہم آپس میں کہتے ہیں کہ اتفاق سے یہ ہوگیا ، اتفاق سے وہ ہوگیا۔ در اصل یہ حالات حق تعالیٰ کی ربوبیت اور رحمت کے تحت ہماری تربیتِ جسمانی وروحانی کی مصلحت سے بھیجے جاتے ہیں ۔ اور رب العالمین کے بعد اپنی صفت الرحمٰن الرحیم بیان فرماکر یہ بتادیا کہ اپنی پوری زندگی میں میری ربوبیت کی ہر شان کے اندر میری رحمت کا اعتقاد رکھنا اگرچہ صورتًا وہ تکلیف کی صورت میں نمودار ہوں مگر وہ واقعات غم و صدمہ بھی تمہاری تطہیر، عفوِ گناہ اور ترقیٔ درجات کے لیے آتے ہیں ؎ کہ بلائے دوست تطہیر شماست دوست کی جانب سے بلا ہماری پاکی کے لیے ہوتی ہے۔ اور کبھی ؎ ایں بلا دفع بلا ہائے بزرگ یہ بلا کسی بڑی بلا کو دفع کرنے کے لیے آتی ہے۔ نیزغمزدہ دل سے جو دعا نکلتی ہے وہ عجیب درد سے بھری ہوئی ہوتی ہے اور حق تعالیٰ کی نگاہِ رحمت اس پر خاص ہوتی ہے۔ احقر کا شعر ہے ؎ اے ٹوٹے ہوئے دل تری فریاد کا عالم اے ٹوٹے ہوئے دل پہ نگاہِ کرم انداز حضرتِ اقدس نے اس وقت سکوت فرمایامگر اپنے بھائی کو جو کراچی میں مقیم ہیں خط لکھا کہ تم اپنے گھر گاہ گاہ اختر کا وعظ کرایا کرو۔ اس سے احقر کو نہایت خوشی ہوئی کہ حضرتِ شیخ کی پسندیدگی اس خط سے ظاہر ہوئی۔ بہرحال حضرتِ اقدس کی کرامت اور دعا ہے کہ یہ عبد بے مایۂ علم و عمل وعظ کہنے لگالیکن اب بھی اپنے اختیار میں کچھ نہیں حق تعالیٰ کی