معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
سنتا ہے یعنی حالاً ذوقاً وجداناً وہ اپنی عارفان نظر سے یہی دیکھتا ہے کہ اَلَا کُلُّ شَیْئٍ مَا خَلَا اللہَ بَاطِلٌ اﷲکے سوا ہر شے فانی ہے اور سوائے خدا کے کوئی باقی نہیں۔ چہ جائے ذرہ کہ چوں آفتاب جاں آید ز آفتاب ربودند خود قبا و کلاہ ترجمہ وتشریح: وہ آفتاب جان یعنی نورِ مطلق حقیقی جب قلب سالک پر متجلی ہوتا ہے تو اس خورشید جہاں تاب کی قبا اور ٹوپی کو بھی اڑا دیتا ہے ۔ یعنی یہ شمس و قمر حق تعالیٰ شانہٗ کے نور کے سامنے ماند اور پھیکے بلکہ کالعدم معلوم ہوتے ہیں ؎ چو سلطانِ عزت علم برکشد جہاں سر بجیب عدم در کشد ترجمہ:جب وہ سلطان عزت اپنا جھنڈا لہرادیتا ہے تو کائنات اپنا سر جیبِ عدم میں ڈال دیتی ہے۔ از جان و دل گوید کسے پیش چناں جانانۂ و ز سیم و زر گوید کسی پیش چناح سیمیں برے محبو بِ حقیقی کے جمالِ لازوال کے سامنے دل و جان کا تذکرہ کون کرتا ہے ۔ یعنی ہر مجاہدہ کو گوارا کرنا آسان ہے حتی کہ جان بھی دے دینا۔ جان دی دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا اس محبوبِ جہاں فروز کے سامنے سیم و زر کا تذکرہ کیا معنیٰ رکھتا ہے۔ لقمہ شدے کون و مکاں گرعشق را بودے دہاں درباں بدندے سرو راں گر عشق را بودے درے ترجمہ وتشریح:اگر عشق کے منہ ہوتا تو یہ دونوں جہاں اس کے لیے ایک لقمہ ہوتا اور اگر