معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
عشق کا دروازہ ہوتا تو اس کی دربانی کے لیے بڑے بڑے سردار خواہش مند ہوتے۔ مراد عشق حقیقی ہے، کیوں کہ عشقِ مجاز دراصل فسق ہے اورعاشقِ مجاز درا صل فاسق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فاعل اور مفعول دونوں ایک دوسرے کی نگاہ میں ذلیل ہوجاتے ہیں اور کائنا ت بھی انہیں ذلّت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ لہٰذا فسق کا نام عشق رکھنا ہی غلط ہے ۔ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: اَفَمَنۡ زُیِّنَ لَہٗ سُوۡٓءُ عَمَلِہٖ فَرَاٰہُ حَسَنًا ؎ جس شخص کی نگاہ میں شیطان بُرائی کو مزین کردیتا ہے تو وہ بُری شے کو اچھی دیکھتا ہے ۔ اس مضمون پر ایک مستقل رسالہ حضرت شیخ تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا تھا جس کا نام تمییز العشق من الفسق تھا۔ آمد بہار اے دوستاں خیزید سوئے بوستاں اما بہار من توئی من ننگرم در دیگرے ترجمہ وتشریح:بہار آگئی اے دوستو! باغ کی طرف چلو لیکن میرے با غ و بہار تو اے شمس الدین تبریزی!آپ ہیں، آپ کے علاوہ کسی اور کو ہم نہ دیکھیں گے۔حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ شیخ سے ایسا ہی تعلق ہونا چاہیے (بشرطیکہ وہ شیخ واقعی متبع سنت و شریعت اور ماہر طریقت ہو) پھر حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد نقل فرمایا ہے کہ حضرت نے فرمایا تھا کہ اگر کسی مجلس میں اکابر جمع ہوجاویں (بالفرض) حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت علامہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم ہوں اور اسی مجلس میں ہمارے مرشد حضرت حاجی امداداﷲ صاحب مہاجر مکی رحمۃ اﷲ علیہ بھی ہوں تو میری نظر صرف حضرت حاجی صاحب کی طرف رہے گی کیوں کہ ہماری تربیت تو حق تعالیٰ نے حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھوں سے کرائی ہے۔ ------------------------------