معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
حدیث شریف میں روایت ہے کہ جو اﷲ تعالیٰ کا ہوجاتا ہے حق تعالیٰ بھی اس کے ہوجاتے ہیں۔ ۲) اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ مجاہدات بلا میں مبتلا کرنے کے لیے عاشقین کو منتخب کیا ہے تاکہ ان کے درجے بلند ہوں اور دنیا میں ان کا مقامِ صبر وتحمل لوگوں کو معلوم ہو۔ ۳) تیسرا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنی حفاظت میں قبول فرمالیا اور اب یہ غیر کا نہ ہوسکے گا یعنی اگر ہونا بھی چاہے تو بھی غیر کے ہاتھ نہ لگ سکے گا کیوں کہ حق تعالیٰ نے اس کو اپنے لیے گرفتار کیا ہوا ہے پھر مخلوق کی کیا مجال کہ خالق کے شکار پر قدرت پاسکے،اور شکار بمعنیٰ انتخاب ہے ۔ ناظرین سے درخواست ہے کہ یہ کتاب عشق و تصوف ہے اس کو لغت محض سے نہ سمجھیں بلکہ اصطلاحِ عشق و شعر و تصوف کے آئینے میں اور ان ہی کے محاورات سے سمجھیں۔ حضرت تھانوی رحمۃاللہ علیہ یہ مصرع وعظ میں اکثر فرمایا کرتے ہیں ؎ شکارش نہ خواہد رہائی ز بند یہاں بھی شکار بمعنیٰ انتخاب ہے۔ پیلانِ شیر دل چو کفت را مسخر اند ایں چند پشہ را چہ مسخر گرفتۂ ترجمہ وتشریح:اے مرشد تبریزی! اس وقت کے بڑے بڑے اولیاء جو قوتِ نسبت میں پیلان شیر دل کے مثل ہیں وہ بھی آپ کی باطنی نسبت سے مستفید ہورہے ہیں اور آپ کے تابع ہورہے ہیں لیکن آپ کے کرم عام کا کمال یہ ہے کہ ہم جیسے چندپشہ یعنی کمتر لوگوں پر بھی آپ کی نظر و توجہ خاص ہے اور دام تربیت میں ہم جیسوں کو بھی شکار کررکھا ہے ۔ (یہ مضمون تشکر آمیز احسان مرشد کے پیش نظر بیان فرمایا ہے) تو اے فقیر روزی فقیری گلہ مکن زیرا کہ صد چو ملکت سنجر گرفتۂ