معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
خونریز اور ہیبت ناک مثل مریخ ستارہ کے ہوتی ہیں اور بہرام فلک (مریخ ستارہ) میرے مرشد شمس کے مقام معرفت اور عارفانہ نظر کی تحقیق و آگاہی کے لیے زمین پر اتر آیا۔ مراد یہ کہ حضرت تبریزی رحمۃ اللہ علیہ بہت ہی صاحب فیض اور اہل نظر تھے۔ حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے یہ مقام اﷲ والوں کا بیان فرمایا ہے ؎ ستاروں کو یہ حسرت ہے کہ ہوتے وہ مرے آنسو تمنا کہکشاں کو ہے کہ میری آستیں ہوتی مجؔذوبحکایت احقر مؤلف عرض کرتا ہے کہ ایک دن پھولپور میں میرے مرشد رحمۃ اﷲ علیہ نے بعد نماز جمعہ مثنوی کے اس شعر پربیان شروع کیا ؎ غم کہ از دریا درو راہے شود پیشِ او جیحون ہا زانو زند جو مٹکا کسی سمندر سے خفیہ راستہ اور رابطہ اپنے اندر رکھتا ہے اس کے سامنے بڑے بڑے دریائے جیحون زانوئے ادب طے کرتے ہیں کیوں کہ دریا خشک ہوسکتے ہیں سمندر خشک نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح اﷲ والوں کے علوم کا حال ہے کہ ان کے باطن میں حق تعالیٰ کے ساتھ مخفی رابطہ ہے لہٰذا اہلِ ظاہر کے علوم ختم ہوسکتے ہیں لیکن اﷲ والوں کے علوم کبھی ختم نہیں ہوسکتے۔ حضرت مرشدی رحمۃ اللہ علیہ پربیان کرتے کرتے ایک خاص حالت طاری ہوگئی اور احقر بیان قلم بند کررہا تھا کہ دورانِ تحریر احقر نے تین مرتبہ حضرت والا کی آنکھیں دیکھیں جو ہر مرتبہ نہایت سرخ تھیں اور بالکل اسی شعر کی مصداق تھیں۔اس کے بعد پھر احقر کی ہمت نہ ہوئی کہ نظر سے نظر کو دوچار کرسکے کیوں کہ تین مرتبہ جب بھی دیکھا تو حضرت والا احقر کی طرف دیکھ رہے تھے ۔ خواجہ صاحب فرماتے ہیں ؎