معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
فروز کے قرب سے ارواح عارفین و عاشقین پر کیا بے خودی ، فنائیت اور استغراق و انبساط طاری ہوتا ہے ؎ اے تبریز باز گو بہرِ خدا بہ شمس دیں کیں دوجہاں حسد برد بر شرف جہاں تو ترجمہ وتشریح:اے شہر تبریز! تو خدا کے لیے میرے مرشد شمس دین کے صدقے مجھے یہ تو بتادے کہ تمام دوسرے شہر بلکہ دونوں جہاں تیری شرافت پر کیوں حسد کرتے ہیں۔ حضرت رومی علیہ الرحمۃنے یہ مضمون بھی غلبۂ حال میں فرمایا ہے ۔ یعنی اس وقت مولانا کی روح پر حضرت شمس تبریزی کی محبت کا غلبہ ہوگیا تھا اور غلبۂ حال میں دوسرے پہلو کی طرف نظر نہیں جاتی۔ ہزار بار کشید ست عشق کافر خو شبم زبام بہ حجرہ زحجرہ تا سر کو ترجمہ وتشریح:عشق کافر خو یعنی عشق ظالم نے ہزار بار مجھے در در کی ٹھوکریں کھلائی ہیں ؎ گاہ راندی مرا گاہ خواندی مرا اے عشق کجا کجا سانیدی مرا سحر موکل عشق آمدہ کہ ہی برخیز گرفتہ گوش مرا سخت ہمچو گوش سبو ترجمہ وتشریح:شب آخر بوقتِ سحر عشق کا موکل آیا اور مجھ سے کہا کہ خبردار! کیا پڑا سوتا ہے اٹھ اور وضو کرکے بارگاہِ حق میں نمازِ تہجد کے لیے کھڑا ہوجا اور اس نے مجھے سوتے ہوئے سے میرا کان اس طرح پکڑکر اٹھایا جس طرح لوگ صراحی کا کان پکڑ کر اٹھاتے ہیں۔ مراد ہاتفِ غیبی ہے جو اکثر اولیاء اﷲ کو تہجد کے وقت محسوس ہوتا ہے یعنی اگر اقتضائے بشریت سے کسل و کاہلی اور نیند سے جب آنکھ نہیں کھلتی تو کوئی آواز غیبی