معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
گا۔ مولانا غلبۂ حال میں یہ مضامین کہہ گئے ہیں ۔ یہ چھٹی صدی ہجری کے حضرات ہیں، ان کی طاعات اور مجاہدات زبردست تھے، اس وجہ سے ان کے انوار اور آثار و کیفیات بھی نہایت قوی ہوتے تھے ۔ ان پاکیزہ ارواح پر قرب حق کی تجلیات بھی نہایت قوت اورکروفر سے وارد ہوتی تھیں اور عناصر اجسام کبھی تحمل سے قاصر اور عاجز ہوجاتے تھے، اس وقت غلبۂ حال میں ایسی باتیں فرما جاتے تھے ۔ اور یہ ایسے مخلص جاں باز تھے کہ پھر بھی بزبان حال یہی کہتے رہتے تھے ؎ دکھا جلوہ وہی غارت گر جان حزیں جلوہ ترے جلوؤں کے آگے جان کو ہم کیا سمجھتے ہیں بس ایک بجلی سی پہلے کوندی پھر اس کے آگے خبرنہیں ہے مگر جو پہلو کو دیکھتا ہوں تو دل نہیں ہے جگر نہیں ہے ان ہی تجلیاتِ قویہ خاصہ کو مولانا نے مثنوی میں بیان فرمایا ہے ؎ گر بہ بینی کر و فر قرب را جیفہ بینی بعد ازیں ایں شرب را ترجمہ:اے مخاطب!اگر تو حق تعالیٰ کے قرب کا کر وفر دیکھ لے تو تمام کائنات اور اس کی رنگینیاں تیری نگاہوں میں مردار اور بے قدر معلوم ہوں ؎ گر بہ بینی یک نفس حسنِ ودود اندر آتش افگنی جان ِ ودود ترجمہ:اگر ایک لمحہ کو بھی تو خدائے پاک کے جمال کو دیکھ لے تو وفور شوق سے اپنی جان کو آتش بلا میں ڈال دے۔ اے کہ نارستہ ازیں فانی رباط تو چہ دانی سکر و صحو انبساط ترجمہ:اے شخص! تجھے تو دنیا پرستی ہی سے فرصت نہیں تو کیا جانے کہ اس جمال جہاں