معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
حضرت مولانا محمد قاسم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے جنازے میں عام مسلمانوں کے علاوہ کمبل پوش فقراء کی ایک بڑی جماعت حاضر تھی جو بعد دفن غائب ہوگئی۔ (غالباً ابدال تھے) (سوانح قاسمیہ، جلد نمبر: ۳)۔ سخت خوش است چشم تو واں رخ گلستان تو دوش چہ خوردۂ مہا راست بگو بجان تو ترجمہ وتشریح:اے مرشد تبریزی!آج تو آپ کی آنکھیں نہایت انوار سے پر ہیں اور آپ کا چہرہ گلستان قرب حق معلوم ہورہا ہے ۔ سچ سچ بتائیے کہ رات آپ نے کس درد و محبت اور اخلاص سے اس جان کائنات کو یاد کیا ہے جس کے انوار و کیف نے آپ کی آنکھوں کو بھی مست کردیا ہے اور چہرے کو بھی تاباں کردیا ہے ؎ دل کو آزار محبت کے مزے آنے لگے اس کے میں قرباں کہ جس نے درد کو پیدا کردیا مجؔذوب رحمۃ اللہ علیہ دل کی گہرائی سے ان کا نام جب لیتا ہوں میں چومتی ہے میرے قدموں کو بہار کائنات اخؔتر فتنہ گرست نام تو پُر شکرست کام تو باطرب ست جام تو بانمک ست نان تو ترجمہ وتشریح:اے مرشد تبریزی! آپ کا نام شمس الدین بھی نہایت پیارا اور فتنہ گر ہے اور آپ کا مقصود یعنی رضائے حق بھی نہایت شیریں (پُر شکر) ہے ۔ آپ کے ارشادات بھی نہایت ہی پُر کیف اور پُر درد و محبت ہیں اور آپ کی غذا ئے روحانی نہایت ہی لذیذ ہے جس طرح نان میں نمک لذیذ ہوتا ہے اسی طرح آپ کے ذکر کو آپ کے قلب کی آہ اور درد و محبت کی آمیزش نہایت قوی النور بنادیتی ہے ؎