معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
مولانا فرماتے ہیں کہ اگر کوئی رند بوئے مے کو کسی خوشبودار چیز (لونگ الائچی) سے چھپا بھی لے گا تو وہ اپنی مست آنکھوں کو کہاں لے جائے گا اور انہیں کیسے چھپائے گا۔ اسی طرح اہل اﷲ اگر اپنی مخفی طاعتوں اور ذکر و شغل و مناجات اور شب خیزیوں اور آہ و نالوں کو چھپا بھی لیں تو ان سے پیدا شدہ ان انوار و کیف کو کہاں لے جائیں گے جو ان کے چہرے اور ان کی آنکھوں سے عیاں ہوتے ہیں ؎ مرد حقانی کی پیشانی کا نور کب چھپا رہتا ہے پیش ذی شعور چوں بشناخت بندہ را بندۂ کثر روندہ را گفت بیا بہ نزد من چند روی تو سو بہ سو ترجمہ وتشریح:حضرت مرشد تبریزی رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے پہچان لیا کہ یہ تو جلال الدین رومی ہے تو اپنے سکر و کیف و مستی ہی کی حالت میں فرمایا کہ ارے! تم میرے پاس آجاؤ کب تک ادھر ادھر مارے مارے پھروگے ۔ یعنی گنجینۂ علم و معرفت کے پاس رہنے کا ارادہ کرلو۔ آہ جس وقت لوگوں نے حضرت مولانا قاسم صاحب نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کو قبر میں رکھا تو حضرت شیخ الہند رحمۃ اﷲ علیہ مٹی ڈالتے ہوئے یہ شعر پڑھتے جاتے تھے ؎ مٹی میں کیا سمجھ کے دباتے ہو دوستو گنجینۂ علوم ہے یہ گنج زر نہیںحکایت کسی نے حضرت مولانا محمدقاسم صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا تھا کہ بزرگوں کے پاس دفن ہونے سے کیا فائدہ ہوتا ہے۔ جواب میں ارشاد فرمایا کہ تم اس وقت مجمع میں پنکھا کس کو جھل رہے ہو ؟کہا:آپ کو ،پنکھا بڑا تھا دوسروں کو بھی ہوا لگ رہی تھی ۔ فرمایا:اسی طرح حق تعالیٰ کی رحمت کا مقصود کوئی ہوتا ہے مگر پاس والوں کو بھی اس رحمت کے جھونکوں سے استفاد ہ ہوتا رہتا ہے۔ (ارواحِ ثلاثہ، صفحہ: ۱۸۱)