معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
اور میری روح اگر ان کی پیاسی نہیں ہے تو ان کے دریائے قرب سے میں کیا تلاش کررہا ہوں ۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کی مراد یہ ہے کہ عاشقان حق کی شب بیداری اور ذکر و فکر اور ان کا مجاہدہ یہی ان کے عشق باطنی کی دلیل ہے۔ ببر عقل و ببر ہوشم کہ چوں پنبہ است در گوشم چہ گوشم رست ازیں پنبہ در آید ہائے ہوئے او ترجمہ وتشریح:اے عشق !تو میری عقل اور ہوش کو اڑادے کہ یہ تیرے کان میں محبوب کی آواز سننے سے مثل روئی بندش ہے یعنی عقل اور حواس خمسہ کے مدرکات نے ہم کو عناصر کے غوغائے فانی میں اس طرح مشغول کررکھا ہے کہ عالم قدس اور عالم غیب کی طرف سے کوئی آواز سنائی نہیں دے سکتی لہٰذا اس عقل و ہوش سے دیوانگی اور بے خودی کی راہ پکڑنی چاہیے۔ آگے دوسرے مصرعہ میں فرماتے ہیں کہ یہ اچانک عالم غیب سے ہائے ہوئے کی آواز کیوں محسوس ہونے لگی کیا میرا کان اس پنبۂ غفلت سے خلاصی پاگیا جو مانع ادراک اصوات غیبیہ تھا۔ ہمی گوید دل زارم کہ من زو وعدہ ہا دارم نیا شامم شرابے من بجز خون عدوے او ترجمہ وتشریح:میرا قلب مضطر یہی پیغام دیتا ہے کہ میں نے بہت سے وعدے روز ازل کیے ہیں پس میں کسی شراب سے آسودہ نہیں ہوسکتا ہوں بجز اعداء اﷲ کے خون سے ۔ اس میں مولانا نے تمنائے جہاد و جانبازی بیان فرمائی ہے ؎ نکل جائے دم تیرے قدموں کے نیچے یہی دل کی حسرت یہی آرزو ہے چہ باشد ماہ یا زہرہ چو او بکشاید آں چہرہ چہ دارد قند یا شہدے ز شیرینی روے او