معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
علیٰ عربی میں وجوب کے لیے آتا ہے لیکن یہ وجوب بھی فضلاً و احساناً فرمایا ہے۔ پس بندوں کو ناز کا مقام نہیں عبدیت و اطاعت بجالائیں، جس کا ثمرہ یہ ہوگا کہ ایک دن حق تعالیٰ کرم فرماہی دیں گے۔ اعمال صالحہ کرکے قبولیت کے لیے درخواست کرنا اور عدم قبولیت کا خوف رکھنا ہی عین ایمان ہے۔ جیسا کہ یُؤْتُوْنَ مَا اٰتَوْا وَّقُلُوْبُہُمْ وَجِلَۃٌ کی تفسیر میں تصریح حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی روایت سے مذکور ہے کہ یہ آیت ان کی شان میں نازل ہوئی جو نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں لیکن ڈرتے ہیں کہ حق تعالیٰ کے یہاں مقبول بھی ہے یا نہیں۔ پس امید و خوف کے درمیان رہنا اور اعمال صالحہ میں سرگرم رہنا کمال عبدیت ہے۔ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک وعظ میں ایسے مقام پر یہ شعر فرمایا ہے ؎ ہاں وہ نہیں وفا پرست جاؤ وہ بے وفا سہی جس کو ہو جان و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں درد یست غیر مردن کاں را دوا نباشد پس من چگونہ گویم ایں درد را دوا کن ترجمہ وتشریح:محبت اور عشق کا درد ایسا درد ہے جو مرنے تک ساتھ ہے سوائے موت اس کی کوئی دوا نہیں،پس میں کس طرح کہوں کہ آپ ا س درد کی دوا کردیجیے۔ وَاعْبُدْرَبَّکَ حَتّٰی یَأتِیَکَ الْیَقِیْنُ پر عمل کرنا ہے۔ یعنی موت تک اپنے رب کی غلامی میں لگے رہو ؎ پابند محبت کبھی آزاد نہیں ہے اس قید کی اے دل کوئی میعاد نہیں ہے در خواب دوش پیرے در کوئے عشق دیدم بادست اشارتم کر د کاے میل سوئے ماکن ترجمہ وتشریح:رات خواب میں ایک پیر مرد کو کوئے عشق میں دیکھا اور مجھے انہوں نے