معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
بھون میں ایک حجرے کی چوکھٹ پکڑے کھڑے تھے۔ اچانک مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھ کر یہ شعر پڑھا ؎ چمن کا رنگ گو تو نے سراسر اے خزاں بدلا نہ ہم نے شاخ گل چھوڑی نہ ہم نے آشیاں بدلا ز خار بند خیالت چو خار چیں گردم ز نرگس و گل و صد برگ احتراز کنم ترجمہ وتشریح:آپ کے دیا ر کے کانٹوں کے خیال سے بھی جب میں لطف حاصل کرتا ہوں تو اس کی لذّت کے سامنے سینکڑوں برگ و گل و نرگس کو بھول جاتا ہوں ۔ مراد یہ کہ حق تعالیٰ کی محبت جب دل میں پیدا ہوجاتی ہے تو عبادات کا بجالانا اور معاصی سے اجتناب کا مجاہدہ ناگوار چہ معنیٰ لذیذ تر ہوجاتا ہے اور زندگی کا سنگ میل بن جاتا ہے یعنی بدون ذکر و فکر جینا دشوار اور گناہوں میں موت نظر آنے لگتی ہے۔ میں نے فانی ڈوبتے دیکھی ہے نبضِ کائنات جب مزاجِ یار کچھ برہم نظر آیا مجھے کوئی مزہ مزہ نہیں کوئی خوشی خوشی نہیں تیرے بغیر زندگی موت ہے زندگی نہیں مجؔذوب رحمۃ اللہ علیہ ہزار گو نہ بلنگم بہر رہم کہ برند رہے کہ آں بسوئے تست ترک تاز کنم ترجمہ وتشریح:ہزار کاہل و سست اور لنگڑا معلوم ہوتا ہوں جب کسی دوسری راہ پر مجھے لے چلتے ہیں اور جب آپ کی راہ پر چلتا ہوں تو دوڑتا ہوا چلتا ہوں۔ یہ محبت کی علامت ہے ؎