معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
ہے یعنی دل ملنے اور نہ ملنے کی یہ پہچان ہے ؎ ہر کہ دلبر دید کے ماند خمش بلبلے گل دید کے ماند ترش ترجمہ:جو محبوب کو دیکھ لیتا ہے تو کیا وہ خاموش رہتا ہے، کیا بلبل گل کے پاس خاموش رہ سکتا ہے وہ تو چہچہانا شروع کردیتا ہے۔حکایت حضرت خواجہ صاحب مجذوب رحمۃ اللہ علیہ اپنے مرشد تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے عاشق مرید تھے جب ملتے بہت باتیں کرتے ۔ حضرت نے زیادہ بات کرنے کی عادت کی اصلاح کے لیے چالیس دن ان سے گفتگو بند کردی۔ حضرت خواجہ صاحب پر یہ چلۂ سکوت بڑا ہی شاق گزرا،اپنا حال خود اس شعر میں بیان فرمایا ہے ؎ جو چپ بیٹھوں تو اک کوہِ گراں معلوم ہوتا ہوں جو لب کھولوں تو دریائے رواں معلوم ہوتا ہوں جب یہ چلہ خاموشی کا ختم ہوا تو حضرت سے انہوں نے خوب جی بھر کے باتیں کیں۔ حضرت نے مسکراکر فرمایا کہ آپ نے تو آج چالیس دن کی خاموشی کی کسر نکال لی۔حکایت ایک بار خواجہ صاحب کو خانقاہ شریف سے نکال دیا گیا۔ خواجہ صاحب نے دروازے پر بستر لگادیا۔ لوگوں نے پوچھا:یہ کیا؟فرمایا:یہ خانقاہ نہیں یہ سرکاری سڑک کا فٹ پاتھ ہے۔ پھر یہ شعر پڑھا ؎ ادھر وہ در نہ کھولیں گے ادھر ہم در نہ چھوڑیں گے حکومت اپنی اپنی ہے کہیں ان کی کہیں میریحکایت جب حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ کا وصال ہوگیا خواجہ صاحب خانقاہ تھانہ