معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
نہ ہو ذکرِ حق نہ ہو فکرِ حق تو یہ جینا جینا حرام ہے اخؔتر ہر لمحۂ حیات گزارا ہم نے آپ کے نام کی لذت کا سہارا لے کر اخؔتر انتباہ: اس کا یہ مطلب نہیں کہ بال بچوں کے حقوق سے بے پروا ہوکر ہر وقت ذکر میں لگا رہے یا حلال روزی میں نہ لگے۔ ان اشعار سے صرف یہ مراد ہے کہ ضروری کاموں سے فارغ ہونے کے باوجود اوقاتِ زندگی رائیگاں نہ کریں اور ذکر و فکر میں لگ جاویں اور اﷲ والوں کے پاس حاضری دیں۔ البتہ بال بچوں کے ساتھ اور حلال روزی کے مشاغل میں بھی باخدا رہیں۔ یعنی حق تعالیٰ کی یاد کی خلش قلب میں چبھتی رہے کہ کب فارغ ہوں اور ان کی یاد میں لگوں۔ بزرگوں نے فرمایا ہے کہ حلال روزی کمانے کے لیے اگر کوئی لے امرود یا لے سیب کی آواز لگاتا ہے تو سبحان اﷲ کا ثواب مل رہا ہے، اور اگر اخلاص نہ ہو صرف دکھاوے کے لیے یا طلبِ دنیا کے لیے کہ لو گ مجھے عابد و فقیر سمجھیں یا لوگ دنیا کا مال و نذرانہ پیش کریں اس نیت سے کوئی سبحان اﷲ کہتا ہے تو گناہ لکھا جاتا ہے۔ حق تعالیٰ ہم سب کو اخلاص اورفہمِ سلیم عطا فرمائیں،آمین۔ چو شاہ عشق فرستد سگان خود بہ شکار بہ عشقِ دل بہ دہانِ سگاں شکار روم اگر وہ سلطانِ عشق شکار کے لیے اپنے کتوں کو چھوڑتا ہے تو میں دل سے ان کتوں کے منہ میں شکار ہونے کو ان ہی کی طرف بھاگوں گا۔ مراد یہ کہ جس طرح شکاری جس جانور کو شکار کرتا ہے تو اسے ہر طرف سے کچھ پریشان کراتا ہے تاکہ نشانے کی طرف بھاگ کر آجاوے پس اسی طرح اگر وہ محبوبِ حقیقی ہمارے شکار کے لیے ہمارے اوپر پریشانیاں بھیجتا ہے کہ یہ روتا ہوا مسجد میں بھاگ کر آئے اور غفلت سے باز آئے تو میں خوش خوش اس بلا کو نعمت سمجھوں گا کہ یہ بلا نہیں دراصل یہ کمندِ محبت ہے ۔ ارے یہ