معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
گزرتا ہے کبھی دل پر وہ غم جس کی کرامت سے مجھے تو یہ جہاں بے آسماں معلوم ہوتا ہے اخؔتر نمی شکیبد ماہی ز آب ِ من چہ کنم چو آب سجدہ کناں سوئے جوئے بار روم ترجمہ وتشریح:یعنی اضطرار سے روح و قلب حق تعالیٰ سے اس طرح وابستہ ہوتے ہیں کہ آسمان کے حجابات گویا کہ ختم ہوجاتے ہیں ؎ مبارک تجھے اے مری آہِ مضطر کہ منزل کو نزدیک تر لارہی ہے میرا پیام کہہ دیا جاکے مکاں سے لامکاں اے مری آہِ بے نوا تو نے کمال کردیا اخؔتر میں کیا کروں کہ مچھلی کو پانی سے صبر نہیں آسکتا اورمیری روح بھی مچھلی ہے اور اس کا پانی حق تعالیٰ کا قرب ہے۔ پس جس طرح پانی نشیب کی طرف سجدہ کرتا ہوا جوئے بار سے جاملتا ہے میں بھی اپنے محبوب کی طرف سرنگوں بہا جارہا ہوں۔ حلِّ لغت: جوئے بار: جہاں بہت سی نہریں جمع ہوتی ہیں۔ ز داد عشق بود کاروبارِ سلطاناں بہ عشق درند روم در کدام کار روم ترجمہ وتشریح:حق تعالیٰ کا عشق سلطانی کاروبار عطا کرتا ہے یعنی ذکر و فکر کی لذت عطا کرتا ہے جو ہفت اقلیم اور تمام کائنات کی لذت سے افضل ہے بلکہ اس لذت کے بدون تو عاشقوں کا جینا محال ہے، پس اگر کاروبارِ عشق کی طرف میں نہ جاؤں تو پھر اور کون سا کام کروں؟ ؎