معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
کہے دیتی ہے شوخی نقش پا کی ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے ہر ایک ذرّہ میں اس کو ہی دیکھتا ہوں دلیل صانع کی صنعت میں دیکھتا ہوں اخؔتر اور عشق مجاز فانی اور عارضی ہوتا ہے، آج جن کی زلف مشکبار عقل بر ہے بڑھاپے میں وہی زلف بڈھے گدھے کی دم معلوم ہوگی ؎ آخر او دم زشت پیر خر رومؔی اے بسا خوشرنگ چہ عیاں دارند ز ہر سیرت دروں نہاں دارند اخؔتر ترجمہ:اے لوگو! بہت خوشرنگ چہرے ظاہر میں اچھے معلوم ہوتے ہیں لیکن اندر زہریلے اخلاق بھرے ہوتے ہیں ؎ غیرِ حق را گر کنی اندر نظر شد یکے محتاج محتاج دگر یعنی عاشق غیر غلام در غلام ہوجاتا ہے اورمرشد کی محبت چوں کہ اﷲ کے لیے ہوتی ہے اس لیے اس کو غیر سمجھنا نادانی ہے ۔ محبت للحق بھی بالحق ہی میں داخل ہوتی ہے، اور یہ محبتِ مجازی نہیں بلکہ حقیقی ہے اور شرعاً مطلوب و محبوب ہے۔ وا گر برم نیائی تو ز دور سر بہ جنباں بہ عنایتم نظر کن کہ کنی امیدوارم