معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ اپنے مرشد کے امیر خسرو تھے ۔ آہ !یہی عشق جب مجاز میں مبتلا ہوتا ہے تو دونوں جہاں میں رسوا ہوتا ہے کیوں کہ وضع الشی علی غیر محلہ کے سبب وہ عاشق ظالم ہوتا ہے جو غیرِ حق یا غیرِ اہل حق پر دل و جان فدا کرتا ہے۔ دل و جان کا یہ قیمتی سرمایہ عشق و محبت کا جب محبوبِ حقیقی تعالیٰ شانہٗ اور اﷲ والوں پر فدا ہوتا ہے تو یہ عاشق دونوں جہاں میں بامراد و کامران اور بہارِ جاوداں سے مالامال ہوتا ہے۔ اب کوئی کہے کہ بدون دیکھے اﷲ تعالیٰ سے محبت کیسے ہوسکتی ہے ؟ اس کا جواب اس حکایت میں ملاحظہ کریں۔حکایت ایک شخص نے حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا کہ میں اپنے قلب میں حق تعالیٰ شانہٗ کی محبت محسوس کرتا ہوں مجھ کو تعجب ہے کہ بدون دیکھے یہ محبت کیسے ہوگئی۔ ارشاد فرمایا کہ محبت کے لیے دیکھنا شرط نہیں، ،دیکھو تم اپنی جان سے محبت محسوس کرتے ہو حالاں کہ جان کو کبھی دیکھا نہیں ؎ گر تو او را می نہ بینی در نظر فہم کن اما باظہارِ اثر رومؔی اگر تو خدا کو نہیں دیکھتا تو خدائے پاک کی نشانیوں میں غور کر۔حکایت ایک بدوی سے کسی منکرِ خد ا نے پوچھا کہ خدا کو بدون دیکھے کس طرح پہچانتا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ البعرۃ تدل علی البعیراونٹ کی مینگنیاں گواہی دیتی ہیں کہ ابھی ادھر سے اونٹ گیا ہے اور بدون دیکھے اونٹ پر یقین کرتے ہیں۔ فَکَیْفَ اَرْضُ ذَاتُ فِجَاجٍ وَ سَمَآءُ ذَاتُ بُرُوْجٍ لَا تَدُلُّ عَلَی اللَّطِیْفِ الْخَبِیْرِپس زمین کشادہ راہوں والی اور آسمان برجوں والا اس لطیف و خبیر ذات پاک پر کیوں کر نہ گواہی دے گا ؎