معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
یہ کون آیا کہ دھیمی پڑگئی لو شمعِ محفل کی پتنگوں کے عوض اڑنے لگیں چنگاریاں دل کی چوں گزر کنی خراماں بہ قدے چو سر و نازاں بشوم ز دست حیراں پیے تو فغاں بر آرم ترجمہ وتشریح:اے محبوب مرشد! جب آپ خراماں میرے پاس مثل سرو نازاں کے تشریف لاتے ہیں تو میں بے خود و حیران آپ کو دیکھ کر غلبۂ خوشی سے نالہ و فغاں بلند کرتا ہوں۔ اس کو خوشی کا رونا کہتے ہیں جس کو اہلِ ذوق اور اہلِ عشق خوب سمجھتے ہیں ۔ جس طرح حضرت ابی بن کعب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے یہ خبر سن کر رونے لگے کہ اے ابی ! حق تعالیٰ نے تمہارا نام لے کر یہ فرمایا کہ میں تمہیں سورۂبینہ سناؤں۔ علماء فرماتے ہیں کہ بندہ کے لیے کس قدر مقام مسرّت ہے کہ خالقِ کائنات مولائے کریم اس کا نام اپنی زبان سے لیں۔ پس اس وقت یہ رونا خوشی کا رونا تھا۔ بخدائے کن تو لطفے بہ مزید پیشِ چاکر کہ براں دلے کہ بردی مزید جاں سپارم ترجمہ وتشریح:بخدا اے مرشد تبریزی!آپ اپنے اس غلام رومی پر عنایت مزید فرمائیے کہ آپ نے میرا دل جو لیا ہے میں اس سے بھی بڑھ کر آپ پر جان قربان کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت خواجہ صاحب مجذوب رحمۃ اللہ علیہ ہندی اپنے مرشد حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی کانپور سے روانگی کے وقت تانگہ کے پیچھے پیچھے وارفتہ و دیوانہ وار دوڑ رہے تھے حالاں کہ اس وقت وہاں وہ ڈپٹی کلکٹر تھے لیکن عشق دشمنِ ناموس ان پر حکمرانی کررہا تھا ۔ اسی حال میں یہ اشعار پڑھتے جارہے تھے ؎ دل رُبا پہلو سے اٹھ کر اب جدا ہونے کو ہے کیا غضب ہے کیا قیامت ہے یہ کیا ہونے کو ہے اک ذرا ٹھہرو کوئی تم پر فدا ہونے کو ہے