معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
کی ہم نے بنیاد ڈالی ہے ۔یہاں شہر سے مراد شہر عشقِ حقیقی ہے جو قلب و روح میں عارفین آباد کرتے ہیں۔ چو شیرانے کہ می غرند برمن چو روبہہ عاجز و منقار کردم ترجمہ وتشریح:مثل شیروں کے غراتے ہوئے مجھ پر نفس نے گناہوں کے تقاضوں سے حملہ کیا لیکن خدا کے خوف سے میں نفس کو اس طرح چت کرتا ہوں کہ اس کے تقاضوں کے شیروں کو لومڑی بنادیتا ہوں اور عاجز و درماندہ کردیتا ہوں ۔ یعنی نفس کو ہماری روح شکست دے کر نافرمانی کے وبال سے محفوظ اور نورِ تقویٰ سے منوّر اور قربِ حق سے مسرور ہوگئی۔ غلام خواجہ را آزاد کردم منم کاستاد را استاد کردم ترجمہ وتشریح:روح جو خواجہ ہوتے ہوئے نفس کی غلام ہورہی تھیحالاں کہ تن سواری اور روح سوار ہے۔ جب روح نہ ہو تو یہ سواری بے کار ہے، رو ح جسم کو جدھر چاہتی ہے چلاتی ہے مگر اس سرداری کے باوجود نفسِ مکار نے گناہوں کی عارضی لذت والی لعنتی زندگی کا سبز باغ دکھا کر روح کو اپنا غلام بنالیا تھا۔ میں نے اس خواجہ کو آزادی دلائی اور وہ اس غلامی سے نجات پاگئی۔ پس میں وہ ہوں کہ استاد کو استاد بناتا ہوں یعنی خواجہ کو خواجگی دلاتا ہوں ۔ ’’میں‘‘ سے بظاہر دعویٰ اور تفاخر معلوم ہوتا ہے مگر مولانا نے جو میں استعمال فرمایا یہاں مراد ہر مرشدِ کامل کی روحانیت ہے۔ عجب خاکم کہ من از آتش ِ عشق دماغ چرخ را برباد کردم ترجمہ وتشریح:میں عجیب خاکی بشر ہوں کہ عشقِ حق کی آگ نے مجھے وہ بلندی بخشی ہے کہ آسمان کا دماغ بھی میں نے ڈھیلا کردیا یعنی اولیائے حق کی روحانی رفعت کے سامنے