معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
ہوا تو حضرت صلاح الدین کے قلب کی دنیا بدل چکی تھی۔عرض کیا: اب مجھے اپنی ہمراہی میں قبول فرمائیے ؎ اے سوختہ جاں پھونک دیا کیا مرے دل میں ہے شعلہ زن اک آگ کا دریا مرے دل میں مجذؔوب اب وہ زماں نہ وہ مکاں اب وہ زمیں نہ آسماں تو نے جہاں بدل دیا آکے مری نگاہ میں اصؔغر کائناتِ دل کے ہیں کچھ دوسرے شمس و قمر گرا کے بجلی مرا نشیمن جلا کے اپنا بنالیا ہے اخؔتر مولانا کی صحبت سے حضرت صلاح الدین کو وہ فیض ملا کہ اکابر اولیاء میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ اور یہ نعمت تو اہل دل کی صحبت ہی سے ملتی ہے ؎ ان سے ملنے کی ہے یہی اک راہ ملنے والوں سے راہ پیدا کر امرود سے محبت ہے تو امرود والوں سے ملنا ہی پڑے گا ؎ نہ کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زر سے پیدا دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا افسوس کہ اس زمانے میں ہم کو بُری صحبت جلد مل جاتی ہے اور اچھی صحبت کے لیے ہم کو تلاش نہیں ہوتی تو یہ دولتِ لازوال کیسے ہاتھ لگے ؎ صرصر جو کہے کلیوں سے ہو جاؤ شگفتہ کیا کھل کے وہ شاخوں کو سجادیں گی چمن میں