معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
یہ پوچھتے ہیں ترے جلوہ ہائے ہوش ربا اخؔتر لیکن امتزاجِ محبت سےعقل انسان کی کامل ہوجاتی ہے ۔ خدائے پاک کی محبت کے بغیر کفار کو انسانی عقل سے اتار کر انہیں جانور اور جانور سے بدتر فرمایاگیا۔ شعر ِمذکور کا دوسرا مصرعہ دراصل یہ تھا ؎ یہ پوچھتی ہے تری نرگس خمار آلود لیکن اس مصرعہ میں احقر کو عشق ِمجازی کی بو آتی ہے ا س لیے اس مصرعہ کو احقر نے اس مصرعہ سے تبدیل کردیا جو مذکور ہے۔ بر سر ِ گنجے چو مارے خفتۂ من چو مارے خستہ بے جانت کنم ترجمہ وتشریح:اے عاشق!تو دنیا کی محبت اور ہوائے نفسانی کے خزانے پر مثل سانپ بیٹھا ہوا ہے اور میں تجھے اپنی محبت کے فیضان سے بے نفس اور فانی کرنا چاہتا ہوں ۔ یعنی تیرےنفس امارہ بالسوء کو نفسِ لوامہ پھر نفسِ مطمئنہ بنانا چاہتا ہوں ۔ یعنی تیرے نفس سرکش کو کمزور اور بے جان کرنا چاہتا ہوں جو تیرے اندر کا سانپ ہے۔ نفس کے اقسام حسب ذیل ہیں: ۱) نفسِ امارہ بالسوء:وہ نفس ہے جو ہر وقت گناہ اور برائی کا تقاضا کرتا رہتا ہے۔ ۲) نفسِ لوامہ: وہ نفس ہے جو گناہوں سے بچتا ہے مگر گاہ گاہ گناہ میں مبتلا ہوجاتا ہے لیکن متنبہ ہوکر توبہ کرلیتا ہے اور اپنے کو ملامت کرتا ہے ۔ ۳) نفسِ مطمئنہ:یہ اولیاء کا نفس ہوتا ہے جو تقویٰ کامل سے آراستہ ہوتا ہے اور ہر گناہ سے بچتا ہے اور ذکرِ الٰہی سے دولت اطمینان پاتا ہے ۔ جب ا س نفس کا انتقال اسی حالت میں ہوتا ہے تو بطورِ انعام دو لقب اسے اور ملتے ہیں۔’’راضیہ‘‘ اور’’مرضیہ‘‘۔ ۴) نفسِ راضیہ: جوحق تعالیٰ کے انعامات سے مشرف ہوکر حق تعالیٰ سے راضی ہوتا ہے۔