معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
قل تعالوا آیت است از جذبِ حق ما بہ جذب حق تعالیٰ می رویم ترجمہ وتشریح:جب اپنے پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک کے واسطے سے ہم کو تعالوا کا حکم قرآن میں ہورہا ہے کہ آؤ ہماری طرف۔ پس اس جذب و کشش کے فیض سے ہم حق تعالیٰ کی طرف تیزی سے منزل طے کررہے ہیں ؎ کشتی نوحیم در طوفانِ نوح لا جرم بے دست و بے پا می رویم ہم گویا حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی میں بیٹھے ہیں (بوجہ جذبِ حق کے فیضان سے) پس ہم بے دست و پا یعنی عاجز فی الطریق ہونے کے باوجود بھی حق تعالیٰ کے جذب کی برکت سے قرب حاصل کررہے ہیں۔ آخر ما نیست در دور قمر لا جرم فوق الثریا می رویم ترجمہ وتشریح:رفتارِ سلوک کی انتہا صرف قمر تک نہیں ہے(جیسا کہ اہلِ کفر صرف چاند پر پہنچ کر فخر محسوس کررہے ہیں حالاں کہ ان کے قلوب بے نور اور کفر سے تاریک ہیں) تسخیر مہر و ماہ مبارک تجھے مگر دل میں اگر نہیں تو کہیں روشنی نہیں اﷲ والوں کی رفتار چاند سے بھی تیز ہے ؎ در رہ ِ دنیا ز کل کاہل تر اند در رہِ عقبیٰ ز مہہ گو می برند ترجمہ:عارفین دنیا کے معاملہ میں تو سب سے کاہل ہیں (بوجہ اسے فانی اور ناپائیدار اور