معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
جو ایمان بالغیب لائے،نمازکوقائم کرے اور خدا کی راہ میں اپنا مال خرچ کرے (زکوٰۃ دے) ومثل ذالک دوسرے احکام کوبجالائے تو اس کا یہ انعام ہے کہ یہ لوگ ہدایت پر ہیں اپنے رب کی طرف سے۔ تو اس انعام پر بظاہر یہ اشکال ہوتا ہے کہ انعام تو مزیدار اور پُر لطف ہونا چاہیے ہدایت پر ہونے میں کیا لطف ہے۔ اس کے جواب میں حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنا ایک واقعہ بیان فرمایا کہ ایک بارمیں سہارنپور سے کانپور جانے کے لیے لکھنؤ جانے والی ریل پر سوار ہوا۔ اس ڈبے میں ایک صاحب سے میں نے دریافت کیا کہ کیاآپ بھی لکھنؤ جارہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ میں تو میرٹھ جارہا ہوں۔ میں نے کہا کہ یہ گاڑی تو میرٹھ جانے والی نہیں ہے آپ کو تو یہ لکھنؤ لے جائے گی۔ چوں کہ ریل چل پڑی تھی اب وہ اتر بھی نہ سکتے تھے لیکن دوسرا اسٹیشن بھی قریب تھا تھوڑی ہی دیر میں وہ اتر کر ریل تبدیل کرسکتے تھے مگر صحیح راہ پر نہ ہونے اور غلط راہ پر ہونے کے سبب انہیں اس قدر پریشانی تھی کہ میں نے ان سے کچھ گفتگو کرنی چاہی تو یہ کہہ کر انکار کردیا کہ تمہیں باتوں کی سوجھی ہے اور ہمارے دل کی پریشانی کا جو عالم ہے وہ ہم ہی جانتے ہیں۔ اس حکایت سے یہ بات نہایت واضح ہوجاتی ہے کہ ہدایت کی راہ پر لگ جانے ہی سے سکون شروع ہوجاتا ہے اور غلط راہ پر قدم پڑتے ہی بے اطمینانی اور پریشانی شروع ہوجاتی ہے ۔ حق تعالیٰ اسی کو فرماتے ہیں کہ جو لوگ ایمان لائے، اعمال صالحہ کیے ان کو ہم بالطف زندگی عطا کرتے ہیں اور جو ہماری یاد سے اعراض کرکے غفلت کی زندگی گزارتے ہیں ان کی زندگی کو ہم تلخ کردیتے ہیں ۔ مولانا رومی فرماتے ہیں ؎ عارفاں زانند ہر دم آمنوں کہ گزر کردند از دریائے خوں ترجمہ:اﷲ والے ہر وقت اس سبب سے امن و سکون میں ہیں کہ انہوں نے اپنی نفسانی خواہشات کو حق تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے تابع کردیا ہے اور اس قدر مجاہدہ و محنت