معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
و تکلیف اس سلسلے میں جھیلتے ہیں کہ گویا وہ دریائے خونِ آرزو سے گزرتے ہیں اور ان کا مذاق یہ ہوتا ہے کسی بزرگ کا شعر ہے ؎ آرزوئیں خون ہوں یا حسرتیں پامال ہوں اب تو اس دل کو ترے قابل بنانا ہے مجھے اختر کا شعر ہے ؎ اس نے جب وادیٔ حسرت سے گزارا مجھ کو ہر بُنِ مُو سے مرے خون کا دریا نکلاحکایت میرے مرشد رحمۃ اﷲ علیہ یہ حکایت اکثر احقر کو سنایا کرتے تھے کہ ایک بار حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے خدا !آپ سے ملاقات کا اقرب ترین کیا ذریعہ ہے؟ارشاد ہوا دَعْ نَفْسَکَ وَ تَعَالَ اے موسیٰ!نفس کو چھوڑ دیجیے اور آجائیے۔ مطلب یہ کہ بندہ اور خدا کے درمیان صرف نفس کی خواہشات حائل ہوتی ہیں،نفس کو مٹادو خدا مل جاوے گا۔ اور نفس کو مٹانے کا مفہوم یہ ہے کہ اپنی مرضیات کو خدائے پاک کی مرضیات کے تابع کردے ؎ تو مباش اصلًا کمال ایں ست و بس رو درو گم شو وصال ایں ست و بس ترجمہ:تو اپنے کو مٹادے یہی کمال ہے یعنی کامل وہ ہے جو اپنے نفس کو مٹادے اور جو حق تعالیٰ کی مرضیات میں اپنی مرضیات کو گم کردے یہی وصال ہے یعنی اسی وقت تو واصل ہوجاوے گا ؎ قربِ او را وصال می گویند وصلِ او را محال می گویند ترجمہ وتشریح:دراصل حق تعالیٰ کے قرب کا نام وصال ہے ورنہ لغوی معنیٰ کے اعتبار سے حق تعالیٰ کا واصل بہ معنیٰ مقرب ہے۔