معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
توجہ گھڑے کی طرف سے ہٹ جائے تو گھڑا زمین پر آرہے۔ بس اس مثال سے اﷲ والوں کے قلبی تعلّق مع اﷲ دائمی کو سمجھ لینا چاہیے جس کو اصطلاح میں نسبتِ راسخہ مستمرہ اورحضورِ دائم یا حضور مع الحق یا استحضار مع الحق بھی کہتے ہیں۔ ایک بزرگ اسی کو فرماتے ہیں ؎ شکر ہے دردِ دل مستقل ہوگیا اب تو شاید میرا دل بھی دل ہوگیا مولانا محمد احمد صاحب ترجمہ:حق تعالیٰ کی محبت کی عجیب شان حضرت سعدی شیرازی رحمۃ اﷲ علیہ نے جوحضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اﷲ علیہ بانی سلسلہ سہروردیہ کے خلیفہ اوّل ہیں بیان فرمائی ہے ؎ بسودائے جاناں ز جاں مشتغل بذکرِ حبیب از جہاں مشتغل بیادِ حق از خلق بگریختہ چناں مست ساقی کہ مے ریختہ ترجمہ و تشریح: حق تعالیٰ کے عاشقین اپنی جانوں سے بے پروا ہوکر تمام کائنات سے منہ پھیرے ہوئے ان کی یاد میں مشغول ہیں اور یادِ حق کے لیے خلق سے کنارہ کش ہیں اور ساقیٔ ازل کے ایسے دیوانے ہورہے ہیں کہ جامِ مے کی طرف بھی التفات نہیں رہا۔ یعنی منعم کی طرف ایسا التفاتِ تام ہوا کہ غلبۂ حال سے نعمتوں کی طرف توجہ نہ رہی۔ انتباہ:مگر کامل حالت وہ ہے کہ کسی حالت سے مغلوب نہ ہو چناں چہ انبیاء علیہم السلام منعم اور نعمت کا بیک وقت حق ادا کرتے ہیں اور نعمتوں میں لطفِ منعم ہی کا عکس دیکھتے ہیں اور اولیائے کاملین کا بھی یہی حال ہے کہ خالق اور مخلوق کے حقوق کو بیک وقت ادا کرتے ہیں ۔ البتہ فرق یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر بیک وقت توجہ الی الخالق اور توجہ الی المخلوق دونوں کمال درجہ پر فرض ہوتی ہے اور اولیائے امت اس قوی