معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
چناں چہ مشاہدہ بھی ہے کہ ہر گناہ سے نفس کے تقاضے اور شدید ہوجاتے ہیں مثلاً بدنگاہی کا مرض ہے جتنا ہی زیادہ بدنگاہی کرتا ہے اسی قدر زیادہ خواہش ہوتی ہے اور اگر ہمّت کرکے آنکھوں کو بچالے تو پھر یہ تقاضا کمزور ہوجاتا ہے۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ اگر یہ ارادہ کرلے کہ کسی حسین لڑکے یا عورت کو ہرگز نہ دیکھوں گا اگرچہ جان جانے کا اندیشہ بھی محسوس ہو تو پھر اس ہمّت و ارادہ کی برکت سے آدمی اس بیماری سے نجات پاجاتا ہے۔ اسی طر ح ہر بدنگاہی پر چار چھ رکعات نوافل کا جرمانہ بھی کرلے تو شیطان مایوس ہو کر اس کا تعاقب چھوڑ دیتا ہے کہ گناہ تو توبہ سے معاف کرالیا اور نوافل کا نفع الگ رہا۔ پس شیطان اپنی محنت کو رائیگاں دیکھ کر اس سے بھاگ جاتا ہے۔ لیکن سالک کو چاہیے کہ مرتے دم تک مجاہدہ کو اپنے اوپر لازم سمجھے اور نفس و شیطان سے بے فکر نہ رہے۔ حضرت مجذوب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ بھروسہ کچھ نہیں اس نفسِ امارہ کا اے زاہد فرشتہ بھی یہ ہوجائے تو اس سے بدگماں رہنا نفس کا اژدھا دلا دیکھ ابھی مرا نہیں غافل ادھر ہوا نہیں اس نے ادھر ڈسا نہیں نہ چت کرسکے نفس کے پہلواں کو تو یوں ہاتھ پاؤں بھی ڈھیلے نہ ڈالے ارے اس سے کشتی تو ہے عمر بھر کی کبھی وہ دبالے کبھی تو دبالے ولے بہ بیں کہ نہ گردد ز جاں سپاری سیر اسیرِ عشق نہ گردد ز رنج و خواری سیر