معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
ز زخمہائے نہا نے کہ عاشقاں دارند بخوں درست نہ گردد ز زخم خواری سیر ترجمہ وتشریح:عاشقانِ خدا کے دلوں کو دیکھو کہ حق تعالیٰ کی راہ میں جان دے کر بھی سیر نہ ہوئے یعنی بار بار جامِ شہادت نوش کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ گر مرا صد بار تو گردن زنی ہم چو شمعے بر فروزم روشنی اگر بار بار اے عشق!تو میری گردن مارے تو میں شمع کے مانند اور روشنی بڑھاؤں گا یعنی جس طرح چراغ کی بتی کو جب قینچی سے کاٹ دیتے ہیں تو گُل ختم ہونے سے روشنی اور بڑھ جاتی ہے اسی طرح شہداء کی گردن کٹنے سے ان کا نورِ باطن اور قوی ہوجاتا ہے،عشق کا قیدی محبو ب کی راہ میں زخمِ مجاہدہ سے سیر نہیں ہوتا،جوزخم پنہاں کہ عشاق اپنے باطن میں رکھتے ہیں وہ خون پیدا ہونے سے اچھا نہیں ہوتا بلکہ زخم کھانے سے سیر ہوتا ہے۔ مراد یہی ہے کہ عشاق حق تعالیٰ کی راہ میں ہر وقت مجاہدات کے زخم کو بصد شوق برداشت کرتے ہیں اور اہلِ تنعم و عیش اس حالت کے تصور سے بھی کانپتے ہیں۔ لیکن ان کو نہیں معلوم کہ کباب کھانے والے کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو غم وصدمہ سے نہیں ہیں بلکہ انتہائی لذت و چٹ پٹے ہونے کے سبب یہ آنسو نکل رہے ہیں۔اسی طرح اﷲ والوں کی ظاہری خستہ حالی پر نہ جانا چاہیے ان کے باطن کے عیش کا ادراک حاصل کرو ؎ ہزار جان مکرم سپرد ہر نفسے در آں شکار نہ شوزاں شکار واری سیر ترجمہ و تشریح: ہزاروں مکرم جانیں انبیاء علیہم السلام اور اولیائے کرام کی ہر نَفس اس ذاتِ پاک پر قربان ہوتی ہیں۔ پس جس شکار سے تو سیر ہوجاوے وہاں شکار نہ ہونا کیوں کہ