معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
حکایت حضرت بڑے پیر صاحب شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ سے شاہِ سنجر نے درخواست کی کہ اگر آپ اجازت دیں تو نیمروز علاقے کی آمدنی آپ کی خانقاہ کے لیے وقف کردوں ۔ آپ نے جواب میں یہ دو شعر تحریر فرمادیے ؎ چوں چتر سنجری رخ بختم سیاہ باد در دل اگر بود ہوس ملک سنجرم زانگہ کہ یافتم خبر از ملک نیم شب من ملک نیمروز بیک جو نمی خرم ترجمہ:شاہِ سنجر کے سر پر بوقتِ عدالتِ شاہی سیاہ رنگ کی جو چھتری ہوتی ہے اسی طرح میرا نصیبہ بھی سیاہ ہوجاوے اگر میرے دل میں ملک سنجر کی ہوس موجود ہو۔ جس وقت سے حق تعالیٰ کے کرم نے مجھے آدھی رات کی سلطنت بخشی ہے یعنی تہجد کی نماز کی لذت سے سر مست و سرشار ہوں اس لذّتِ قربِ خداوندی کے مقابلے میں تمہاری نیمروز کی سلطنت کو میں ایک جو کے عوض بھی نہیں خرید سکتا۔ خلاصہ یہ کہ حق تعالیٰ کی محبت اور طاعت و ذکر و فکر میں جو لذت ہے اور جو مٹھاس ہے اس کی خبر شکر کو بھی نہیں ہے ؎ نہ کبھی تھے بادہ پرست ہم نہ ہمیں یہ ذوقِ شراب ہے لبِ یار چوسےتھے خواب میں وہی ذوقِ مستی خواب ہے یعنی روزِ ازل ساقیٔ ازل نے ارواح کو جو تجلّی دکھائی تھی اس سوال میں کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں اور ارواح نے کہا تھا بلٰی کیوں نہیں۔ یہ شعرِ مذکور ہمارے مرشد رحمۃ اللہ علیہ اکثر پڑھا کرتے تھے ۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت عالم بھی تھے اور عاشقِ حق بھی تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ غیر عالم جب اس راہ میں آکر ذکر و شغل کرتا ہے تو صاحبِ نور ہوجاتا ہے لیکن جب عالم اس راہ