معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
تجلیات کی دلکش روشنی کو شمس و قمر کیا جانیں اور ان کی نسیمِ کرم کو باد بہاری کیا جانے اور ان کے حسن و جمال کو سرو شجر کے قد و قامت کیا جانیں۔ اسی کو مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ گر بہ بینی یک نفس حسنِ ودود اندر آتش افگنی جانِ ودود ترجمہ:اگر تو ایک لمحہ کو بھی حق تعالیٰ کا حسن و جمال دیکھ لے تو غلبۂ شوقِ بے خودی میں اپنی محبوب جان کو آگ میں ڈال دے یعنی ہر مجاہدہ تجھ پر آسان بلکہ جان دینا اور جان دے کر یہ کہنا آسان ہوگا ؎ جان دی دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا گر بہ بینی کر و فر قرب را جیفہ بینی بعد ازیں ایں شرب را ترجمہ:اگر تو حق تعالیٰ شانہٗ کے جمال کا کرو فر یعنی شان و شوکت دیکھ لے تو تمام کائنات اور اس کی لذت تجھے مردار اور بے قدر معلوم ہوں گی۔ یہی وجہ ہے کہ اولیائے کرام کو ہفت اقلیم کی سلطنت سے بھی خریدا نہیں جاسکتا۔حکایت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ کو بمبئی کے دو سیٹھوں نے ایک لاکھ روپیہ پیش کیا ، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:ہم بدون تعارف اور بے تکلّفی کسی کا ہدیہ نہیں لیتے اور اتنے بڑے ہدیہ کا تو میں تحمل بھی نہیں کرسکتا اور نہ مجھے ضرورت ہے۔ رمزی اٹاوی نے مجددالملّت حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ کی شان میں کیا خوب کہا ہے ؎ نہ لالچ دے سکیں ہرگز تجھے سکوں کی جھنکاریں ترے دستِ توکّل میں تھیں استغنا کی تلواریں