معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
حق تعالیٰ کے راستے میں نفس کو حرام اور ناجائز لذّتوں سے محروم ضرور ہونا پڑتا ہے مگر پائخانہ پیشاب سے بچنا ہی تو انسانی قدر و منزلت کا معیار ہے۔ پھر خد ا کی راہ میں تکلیف اٹھانے میں چند دن کا تو مجاہدہ ہے مگر پھر قلب و روح کو جو چین و کیف اور سکون عطا ہوتا ہے بخدا وہ کسی گناہ گار کو خواب میں بھی میسر نہیں ہوسکتا۔ گناہ گار کی زندگی تو نہایت عذاب اورسراپا تکلیف میں ہے۔ مخلوق میں رسوائی کا خوف خالق کے سامنے روسیاہی کا اندیشہ ہر وقت اس کے دل و دماغ کو زندہ درگور کرکے دنیا ہی میں دوزخ کے اندر ڈال دیتا ہے ؎ اُف کتنا ہے تاریک گناہ گار کا عالم انوار سے معمور ہے ابرار کا عالم مولانا محمد احمؔد صاحب خلاصہ یہ کہ گناہ گار کا جسم عارضی لذّت گناہ کی پاتا ہے مگر قلب و روح کو ہر وقت عذاب بے سکونی میں گرفتار پاتا ہے اور اﷲ والے نفس کی خواہشات کو توڑ کر اپنے قلب و روح میں لافانی سکون اوربہار جنّت کی دائمی خوشبو محسوس کرتے ہیں۔ جس کا جی چاہے تجربہ کرکے دیکھ لے اور ایک صورت تجربہ کی اور آسان ہے اس کو حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے ایک وعظ ’’راحت القلوب‘‘ میں بیان فرمایا ہے ۔ وہ فرمانِ خداوندی ہے کہ صرف ذکرِ خدا سے دلوں کو اطمینان ملتا ہے اور ذکرِ کُلّی مشکک ہے ۔ ذکر جس درجہ کا ہوگا اسی درجہ کا اطمینان مرتب ہوگا یعنی جس قدر ذکرِ کامل ہوگا اسی قدر اطمینان کامل عطا ہوگا۔ اور اگر ذکرِ ناقص ہے یعنی گناہوں کے ارتکاب کے ساتھ ساتھ یا ذکر کی کمیت و کیفیت میں کسی قسم کی کمی ہو تو اسی قدر اطمینان ناقص ہوگا ،مگر اطمینان ملے گا ضرور خواہ کسی درجے میں ہو۔ اور ذکرِ ناقص بھی کرتا رہے کیوں کہ ذکرِ کامل کا ذریعہ بھی یہی ذکرِ ناقص ہے۔ جس طرح بچوں کے حروف شروع میں ٹیڑھے اور خراب بنتے ہیں مگر اسی ناقص مشق حروف سے آہستہ آہستہ عمدہ حروف بننے لگتے ہیں ۔ پس اگر کوئی بچہ ناقص حروف سے مایوس ہوکر لکھنا چھوڑدے گا تو کامل حروف سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوجاوے گا۔ پس جس طرح سے ہوسکے ذکر کیے جاوے۔